ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2010 |
اكستان |
|
مدنی فارمولے کے میرے اِس مضمون پر جو اِشکالات وَارد کیے گئے اُن کا جواب بھی میں نے لکھ کر بھیج دیا تھا جو روزنامہ ''جنگ لاہور '' ہی میں بہت دیر سے ٩ جون ٨٤ ء کو رنگیں صفحات کے تیسرے صفحے پر شائع ہوا وہ بھی ہدیۂ قارئین ہے۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ میرا ایک مضمون سیٹھی صاحب کے جواب میں ١٥ دسمبر ١٩٨٣ء سے جنگ میں بالاقساط شائع ہوا۔ اِس کے جواب میں محترم مسعود صاحب ایڈوو کیٹ کا مضمون ٧ جنوری ١٩٨٤ء کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا ہے۔ گزشتہ چھتیس سال تک جوابی دلیل کو اَخبارات میں کبھی جگہ نہیں دی گئی یک طرفہ پروپیگنڈہ ہی چلتا رہا ہے ۔سیٹھی صاحب کے مضمون اَور مجیب صاحب شامی کے لکھنے پر کہ جواب دلیل سے ہوناچاہیے پہلی بار جمعیت کا فارمولا اَور دَلیل اَخبار میں چھپی اِس کے جواب میں مسعود صاحب نے مضمون لکھا تو اُس میں جذباتی رنگ کا غلبہ نظر آیا اُنہوں نے جذبات میں موضوع سے ہٹ کر اَور نئی بات چھیڑ دی وہ بھی بے اَصل ہے مگر یہاں ایک گروہ اُسے اپنے زور اَور دھاندلی سے لکھتا چلا آرہا ہے کہ حضرت مدنی دو قومی نظریے کے مخالف تھے کیونکہ مسعود صاحب کا مضمون میرے مضمون کے جواب میں ہے اِس لیے میری یہ تحریر آپ کے سامنے آ رہی ہے جو جواب الجواب ہے۔ اُن کی تحریر کے اِس حصّے سے ہمیں کامل اِتفاق ہے کہ اَیسے مضامین کی اشاعت جبکہ تقسیم کو اِتنا طویل عرصہ گزرچکا ہے لایعنی ہے اَور یہ پاکستان کے لیے مفید نہیں ہے اِس لیے ہم یہ کہتے ہیں کسی اَخبار کو اکابر ِ اُمت پر کیچڑ اُچھالنے کی اجازت نہ ہونی چاہیے کوئی اَخبار اگرا ِس بات کو خدمت ِ اِسلام اَور خدمت ِ پاکستان تصور کرتا ہے تو اُس کی اِس غلط فہمی کی اِصلاح کردینی چاہیے اُسے چاہیے کہ وہ تہمت سازی اَور دُشنام طرازی کو تاریخی حقائق کا نام نہ دے ورنہ اِتنا تحمل اَور حوصلہ پیدا کرے کہ کم اَز کم تاریخی حقائق کسی دُوسرے بے کس کی زبان سے بھی سن لے وہ اگر جواب دے تو بُرا کیوں مانتے ہیں؟ خصوصًا جبکہ اُس کے جواب کا مقصد اپنے اَکابر کی صفائی اَور اُن کی نیک نیتی کا اِظہار ہو اُسے تاریخی حقیقت سمجھیں نہ کہ پاکستان کی مخالفت۔ کیا پاکستان اِتنا کمزور ہے کہ یک چشمی تاریخ بیان کی جائے تو قائم رہے گا اَور دُوسرا نظریہ اَور اُس کی دلیلیں سامنے آئیں تو خدانخواستہ اِس کے وجود کو خطرہ لاحق ہوجائے گا