ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2009 |
اكستان |
|
چرچ ہے ہم جونہی آگے بڑھے تو ہمارے دائیں اور بائیں جانب حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور اُن کی والدہ کی تصویریں اور مجسمے دیواروں پر کندہ کر دیے گئے ہیں مگر مسجد کی دیواروں اور چھتوں پر آج بھی قرآنی آیات اُسی طرح محفوظ ہیں جن کو آج تک مٹایا نہیں جا سکا، مسجد کا محراب اور منبر بھی محفوظ ہے مگر اِس منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ دینے والے موجود نہیں یا موجود تو ہیں مگر اُن کو خدا کی توحید کا اعلان کرنے کی اجازت نہیں بلکہ آج کفر و شرک کے سائے مسجد کے چاروں طرف چھائے ہوئے ہیں۔ مسجد کا تقدس بری طرح پامال کیا جا رہا ہے مسجد کی حالت ِزار اُس کی ویرانی اور افسردگی کو دیکھ کر دِل خون کے آنسو روتا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مسجد کے دَرو دِیوار زبان ِحال سے کہہ رہے ہوں کہ مسلمانو !تم کہاں سو گئے ہو ہم اَذان کی آواز اور قرآن کی تلاوت کو ترس گئے ہیں صدیاں بیت گئیں مگر کہیں سے کوئی جواب نہیں آرہا۔ مسلمان ایک اور طارق بن زیاد کہاں سے لائیں جو اُنہیں جامع مسجد قرطبہ میں نماز پڑھنے کی اجازت دِلوا سکے ایسے سپوت مائیں روز روز تو نہیں جنا کرتیں۔ قرطبہ شہر جہاں کبھی کوئی غیر مسلم نہیں ملتا تھا آج وہاں کوئی مسلمان نہیں ملتا، زمانہ بدلتا ہے رنگ کیسے کیسے، جس شہر میں مسجدوں کی تعداد چار سو نوے کے قریب تھی آج اُسی شہر میں صرف چار مساجد رہ گئیں ہیں قرطبہ شہر میں صرف ایک مسجد ہے اور باقی تین مساجد شہر کے مضافات میں واقع ہیں۔ جامع مسجد قرطبہ جو صدیوں تک مسلمانوں کا مرکز اور محور رہی ہے اُسے چرچ میں تبدیل کر کے مسلمانوں پر اِس میں عبادت اور نماز پڑھنے پر پابندی لگا دی گئی ہے جو آج تک برقرار ہے جو اُمتِ مسلمہ کے لیے ایک چیلنج ہے جس کا اُنہیں سامنا کرنا چاہیے اور اُس کو واگذار کرانے کے لیے اعلیٰ سطح پر کوششیں کی جانی چاہئیں۔ جامع مسجد قرطبہ کا محراب و منبر اُس کی چھتوں اور دیواروں پر لکھی ہوئی قرآنی آیات اِس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ مسجد ہے اور پوری دُنیا کے سیاح اِسی مسجد کو دیکھنے آتے ہیں چرچ دیکھنے نہیں جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لوگ اِس کی مسجد کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ جامع مسجد قرطبہ کی زیارت کے بعد ہم مسجد کے عقب میں ایک عرب ریسٹورنٹ جو قرطبہ شہر میں حلال کھانوں کا شاید واحد مرکز ہے دوپہر کا کھانا کھانے گئے تو ریسٹو رنٹ کے مالک برادر عبداللہ نے بڑے