ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2009 |
اكستان |
|
(٦) ایسے شخص کو مکہ سے باہر کسی مقام پر جومیقات سے خارج ہو، کسی ضرورت سے یا تفریحاً جانا جائز ہے (شرح مناسک ملا علی قاری ص١٩٠)(مثلاً مدینہ طیبہ یا طائف وغیرہ جانا چاہے تو جائز ہے )اورپھر قِران بھی کرسکتا ہے ۔(اِرشاد ص١٨٦ حاشیہ مناسک ملا علی قاری )اور عدم کراہة قِران وعمرہ ص ١٧٢ متن باب القِران میں اورص١٨٣ اور ص١٨٤ حاشیہ مسمی اِرشاد میں ہے۔ ١ (٧) ہاں کسی مکی کا یا ایسے شخص کا جو حکماً مکی ہو چکا ہو اِس نیت سے میقات سے باہر جانا جائز نہیںکہ وہاںجاکر احرام باندھیں گے اور قِران کریں گے( ص ١٨٧) اِسی طرح تمتع کی نیت سے جانا بھی دُرست نہیں(ص١٨٥ ) ۔ ٢ (٨) امام اعظم رحمة اللہ علیہ اورصاحبین فرماتے ہیں کہ تمتع میں ایک ہی سفر سے مراد یہ ہے کہ وہ(اشہر حج میں عمرہ کرنے کے بعد کسی اور علاقہ میں جائے تو جائے لیکن ) گھر لوٹ کرواپس نہ جائے، اورصاحبین یعنی امام ابویوسف اورامام محمد رحمة اللہ علیھما فرماتے ہیں کہ سفر ایک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ مکہ شریف کے علاوہ کسی دُوسرے مقام پر (مثلاً طائف یا مدینہ شریف ) پندرہ دن سے زیادہ نہ ٹھہرے۔ ١ فی منسک الکرمانی عن ابن سماعة عن محمد اِذا دخلت اشہر الحج وھو بمکة او دخل المیقات ثم خرج الی الکوفة لم یصح قرانہ عند ابی حنیفة رحمہ اللّٰہ تعالیٰ وھو الصحیح لکن قال فی الفتح بعد ما ذکر ما مرو وقد یقال انہ لا یتعلق بہ خطاب المنع مطلقا بل ما دام بمکة۔ فاذا خرج الی الآفاق التحق باھلہ لما عرف ان کل من وصل الی مکان صار ملحقا بہ کالآفاق اذا قصد بستان بنی عامر حتی جاز لہ دخول مکة بلا احرام وغیر ذالک۔ واصل ھذہ الکلیة الاجماع علی ان الآفاقی اذا قدم بعمرة فی اشہر الحج کان احرامہ بالحج من الحرم ان لم یقم بمکة الا یوما واحدا .......... ثم رایت فی شرح الجامع الصغیر لمولانا القاضی فخرالدین قاضیخان وغیرہ ما یؤیدہ حیث قال فیہ ولو خرج المکی الی لکوفة لحاجة ثم عاد فقرن واحرم من المیقات بحجة وعمرة کان قارنا لان القارن من یحج من الاحرامین من المیقات وقد وجد (اِرشاد الساری ص ١٨٦) ٢ ویمکن الجمع بین الروایتین بانہ ان خرج الی الکوفة مثلا فی الاشہر قاصدا للقران لایجوز قرانہ لخروجہ للاحرام علی وجہ غیر مشروع (اِرشاد الساری ص ١٨٧)