ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2007 |
اكستان |
|
ایک روایت کے یہ الفاظ کہ ھَلْ لَقِیْتُ مَالَقِیْتُ اِلاَّ مِنَ الصِّیَامِ اور دُوسری روایت کے الفاظ ھَلْ اَصَبْتُ الَّذِیْ اَصَبْتُ اِلَّامِنَ الصِّیَاِم (یعنی جو کچھ مجھ سے ہوا روزہ رکھنے کی وجہ سے ہوا)۔ اِن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس کے روزہ رکھنے کی عدمِ استطاعت اُس کی شہوت کی شدت اور جماع سے صبر نہ کرسکنے کی وجہ سے تھی۔ تو کیا شدت ِشہوت بھی عذر ہے؟ مولانا انور شاہ رحمہ اللہ نے کہا کہ صحیح بات یہ ہے کہ شوافع کے یہاں یہ عذر ہے حنفیہ کے یہاں نہیں ہے لیکن حنفیہ نے اِس اشکال کا کوئی جواب بھی نہیں دیا۔ مولانا نے کہا کہ یہ بھی اُس شخص کی خصوصیت پر محمول ہے۔ اور کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات اِس وجہ سے کہی ہے کہ حنفیہ اور شوافع دونوں ہی خصوصیت کا دعوی کرنے پر مجبور ہیں۔ بعض شوافع کہتے ہیں کہ اُس شخص کی خصوصیت اِس میں تھی کہ وہ کفارہ کی کھجوریں اپنے ہی گھروالوں کو کھلادے جبکہ بعض کہتے ہیں کہ اُس شخص پر کفارہ کی ادائیگی باقی رہی اگرچہ قدرت ہونے تک مؤخر ہوئی۔ تو جب ایک مسئلہ میں شوافع کے لیے خصوصیت کا دعوی کرنا جائز ہے تو دُوسرے مسئلہ میں یعنی کفارہ کے روزوں کے بجائے کھانا کھلانے میں ہمارے لیے خصوصیت کا دعوٰی کرنا جائز ہے۔ خصوصیت کے دعوے کے لیے کوئی ضابطہ متعین نہیں ہے اِس کو صرف ذوق ِسلیم سے پہچانا جاسکتا ہے۔ اور خصوصیت کی ایک مثال حضرت ابوبُردہ کے لیے بھیڑ کے (چھ ماہ سے کم عمر کے) بچے کی قربانی کا جواز ہے۔ جب نبی ۖ نے اُن کو اِس کی قربانی کا حکم دیا اور فرمایا کہ تمہارے بعد کسی اور کے لیے یہ کفایت نہ کرے گا۔ یہاں مولانا بنوری مولانا انور شاہ کشمیری سے یہ نقل کرتے ہیں کہ مذکور قصوں میں دو باتیں ہیں : دُوسری بات یعنی کفارہ کی کھجوریں اپنے گھر والوں کو کھلانے کے حکم میں صاحب ِ قصہ کی خصوصیت تھی۔شافعیہ نے اِس خصوصیت کا قول کیا ہے۔ مولانا کشمیری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ پہلی بات یعنی تندرست و توانا صاحب ِ قصہ سے عدمِ استطاعت صوم کے قول کو قبول کرکے صدقہ کا حکم کرنا اِس کے بارے میں حنفیہ