ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2007 |
اكستان |
|
ہواہے۔ کیا میں نے اپنے پہلے خط میں اِسی قسم کی گزراشات پیش نہیں کی تھیں۔ حضرت جی! اپنے ذہن میں ایک مفروضہ قائم کرکے اُس کی تائید کے لیے دلائل و شواہد تلاش کرنا علمیت نہیں۔ اِس موضوع روایت کے متعلق آپ خود پہلے گرامی نامہ میں تسلیم کرچکے ہیں کہ یہ حدیث نہ باطل ہے نہ صحت کے درجے کو پہنچتی ہے۔ گو آپ کے یہ لفظ بھی ذو معنٰی ہیں کہ جھوٹ بھی نہیں اور سَچ بھی نہیں۔ خیر یہ تو شاید کوئی اِصطلاح ِفضیلت ہو اور اب اِس کی ضرورت بھی نہیں۔ مگر میں یہ عرض کرنے میں اپنے آپ کو حق بجانب پاتا ہوں کہ آپ نے آٹھ صفحات کا طویل گرامی نامہ تحریر فرماتے وقت جن ''فربہ'' قسم کی کتب کی ورق گردانی کی زحمت گوارا فرمائی ہے اور اُن کے حوالجات سے اپنے گرامی نامہ کو زینت بخشی ہے اُن میں سے کسی ایک حوالہ کا نفس موضوع سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ''اَنَا مَدِیْنَةُ الْعِلْمِ یا دَارُ الْحِکْمَةِ وَعَلِیّ بَابُھَا'' صریحًا موضوعات میں سے ہے۔ اور عقل بھی اِس بات کو باوَر تسلیم نہیں کرتی کہ نبی علیہ السلام علم کا جو شہر تھے اُس کا دروازہ صرف علی تھے حالانکہ آپ سے یہ اَمر پوشیدہ نہیں کہ سیدنا علی کی منفرد رَوایات آنحضور ۖ سے حد درجہ قلیل ہیں۔ آج علم حدیث کا جو ذخیرہ ہمارے پاس موجود ہے اُس میں سیدنا علی کا حصہ کس قدر ہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو تدریسی مثاغل سے فرصت کم ملتی ہے ورنہ مجھ سے یہ دریافت فرمانے کی زحمت آپ کو گوارا نہ کرنی پڑتی کہ ''تم کس مسلک سے تعلق رکھتے ہو'' جبکہ میری نصف درجن سے زائد تالیفات مختلف اَخبارات و رسائل میں چھ سات سال سے موضوع بحث بنی ہوئی ہیں۔ محترمی! میں نے جو عرض کیا تھا کہ سیدھا سادہ مسلمان ہوں، اِس سے آپ کو سمجھ جانا چاہیے تھا کہ میں ائمہ اربعہ میں سے کسی کا جامد مقلدنہیں۔ '' اَنَا مَدِیْنَةُ الْعِلْمِ وَعَلِیّ بَابُھَا '' پر میں اپنی ایک سابقہ تالیف حقیقت مذہب شیعہ میں طویل بحث کرچکا ہوں۔ کتاب اَب نایاب ہے۔ اگر میرے پاس ذاتی نسخہ بھی ہوتا تو بجھوادیتا۔ آج اِس عریضہ کے ساتھ اپنی تین کتابیں اور التفقہ فی الدین نامی کتاب بھیج رہا ہوں جس پر میرا مقدمہ ہے۔ اُمید ہے سلسلہ خط و کتابت منقطع نہیں ہوگا اور اِفہام و تفہیم کا سلسلہ جاری رہے گا۔ میرے ایک دوست شعبان میں آپ کے پاس مقیم رہے وہ آپ کی علمی فضیلت کے معترف ہیں اور