ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2007 |
اكستان |
|
کے لیے کوئی حجت نہیں ہے کیونکہ جنت کا گھر حکمت کے گھر سے فراخ نہیں ہے اور جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ اِس حدیث کو روایت کیا ہے عبد السلام بن صلاح ہروی شیعی نے۔ اِس لیے لوگوں نے اِس حدیث کی سند میں گفتگو کی ہے۔ بعض نے اِس کی تصحیح کی ہے اور بعضوں نے تحسین اور بعضوں نے اِس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے یہاں تک کہ یحییٰ بن معین نے کہا کہ اِس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے اور ایک جماعت نے اِس کو موضوع کہا ہے''۔ میں یہاں تک لکھنے پایا تھا کہ میثاقِ کا تازہ شمارہ ڈاکیہ لایا۔ خط لکھنا بند کرکے میثاق کی ورق گردانی شروع کردی۔ الحمد للہ کہ صفحہ ٤٠ پر نظر آکر رُک گئی۔ ''اَنَا مَدِیْنَةُ الْعِلْمِ یا اَنَا دَارُ الْحِکْمَةِ وَعَلِیّ بَابُھَا '' لکھ کر اِس کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ پڑھیے : شیخ الاسلام آیة من آیات اللہ مجاہد اعظم حضرت سیدی و شیخی و مولوی سید حسین احمد مدنی قدس سرہ العزیز مکتوب نمبر ٧٥ میں ص ١٧٩ و ص ١٨٠ پر تحریر فرماتے ہیں : یہ روایت نہ تو صحیحین میں ہے اور نہ روایت کا ذکر کرنے والے اِس کی تصحیح فرماتے ہیں۔ ترمذی نے بھی روایت کرنے کے بعد کلام کیا ہے کہ بعض علماء نے یہ حدیث شریک تابعی سے روایت کی ہے مگر علمائے حدیث اِس کو ثقات میں سے نہیں پہچانتے۔ سوائے شریک کے علامہ ابن ِجوزی نے موضوعات میں اِس کے جملہ طریق پر تعین کے ساتھ باطل ہونے کا حکم دیا ہے۔ ایک جماعت محدثین کی اِس کے موضوع ہونے کی قائل ہے۔ امام الجرح والتعدیل یحییٰ ابن معین صاف فرماتے ہیں کہ اِس روایت کی سرے سے کوئی اصل ہی نہیں۔ طاہر ...... نے بھی اِس کی صحت کا اِنکار کیا ہے۔ امام العصر (مولانا انور شاہ صاحب) بھی روایت کی صحت کو تسلیم نہیں فرماتے۔ (حاشیہ از مولانا نجم الدین صاحب اصلاحی مرتب مکتوبات شیخ الاسلام) ۔ اَب آپ ہی انصاف فرمائیے آپ کیا لکھتے ہیں اور حضرت شیخ الاسلام کیا فرماتے ہیں۔ اس حوالہ کے بعد میں اِس موضوع پر زیادہ گفتگو بے معنی سمجھتا ہوں جو کچھ کہ حضرت مدنی کے مکتوبات کے حوالہ سے نقل