ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2007 |
اكستان |
|
اس میں کوئی شک نہیں کہ دینی مدارس کی بعض بچیاں مثالی خاتون کی صورت میں سامنے آئی ہیں مگر ان کا تناسب جتنا ہونا چاہیے اُس سے بہت کم ہے جبکہ فاضلات کی اکثریت کا حال ایسا نہیں ہے۔ ایک برس پہلے ایک خاتون اپنی دیورانی کو لے کر ہمارے گھر آئیں اور کہنے لگیں کہ یہ لاہور کے .............. کی فاضلہ ہے آپ اِس کو سمجھائیں اِس نے سب کا ناک میں دم کررکھا ہے اور میرے دیور نے میری جان کھا رَکھی ہے اِس لیے کہ اِس سے اُس کی شادی میں نے ہی یہ کہہ کر کرائی تھی کہ ماشاء اللہ عالمہ فاضلہ ہے بہت مبارک رہے گی، تیرے بھاگ جاگ جائیں گے مگر معاملہ اِس کے برخلاف نکلا ۔اب وہ کہتا ہے کہ میں اِس کو طلاق دے دُوں گا۔ اُس لڑکی کے ماں باپ بھی اُس کو سمجھاتے ہیں مگر یہ اُلٹا اُن کو بھی جھڑک دیتی ہے اور کہتی ہے کہ میں دین پڑھی ہوئی ہوں، آپ سے بہتر جانتی ہوں۔ میرے ایک ہم سبق فاضل ِجامعہ نے مجھ کو خود بتلایا کہ ہمارے گھر میں فلاں کی شادی کے موقع پر گھر کے سب مردوں اور عورتوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ اِس کی شادی عالمہ لڑکی سے نہیں کرانی حالانکہ اُن کے گھر کے سب افراد ماشاء اللہ حافظ اور عالم ہیں۔ چنانچہ اُس لڑکے کی شادی جوکہ میرا بھی شاگرد ہے ایک عام مذہبی گھرانے میں ہوئی ۔اِس نوعیت کے دسیوں واقعات آئے دن صرف میرے ہی نہیں بلکہ سب ہی لوگوں کے علم میں آتے ہیں حتّٰی کہ اکابرین بلکہ وفاق المدارس کے اکابرین کے علم میں بھی آتے ہیں اور اِس پر اُن کی طرف سے تشو یش کا اظہار بھی ہوتا ہے اور اِن بچیوں کی اکثر ناکام شادیوں نے ملک بھر میں تشویشناک صورت ِ حال پیدا کردی ہے۔ اِس سب کچھ کے باوجود بھی وفاق المدارس اور دیگر اکابرین کی طرف سے ان اِداروں کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرنا ناقابل فہم ہے۔ ہم نے اِس سے قبل بالواسطہ اور بلاواسطہ نجی مجلسوں اور بعض جلسوں میں بھی اِن تعلیمی اِداروں کے ذمّہ داروں کی توجہ اِن سنگین حالات کی طرف مبذول کرائی ،مگر تاحال بے سود بلکہ اس کو ترقی دے کر نوبت یہاں تک پہنچادی گئی ہے کہ بعض لڑکیوں کو اِفتاء کا کورس کرواکر مفتی بنایا جارہا ہے جبکہ اِس حقیقت سے سب ہی واقف ہیں کہ عام طور پر شادی کے بعد بلکہ شادی سے پہلے ہی یہ لڑکیاں گھریلو معاملات اور بال بچوں میں پڑکر سب بھول بھال جاتی ہیں۔ یہی حال عام طور پر ماسوائے چند کے قرآنِ پاک حفظ کرنے والی بچیوں کا بھی ہوتا ہے۔