ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2007 |
اكستان |
|
ابوہلال نے حضرت قتادہ عن الحسن روایت نقل کی ہے کہ حضرت عثمان جب شہید ہوئے تو حضرت علی غیر موجود تھے وہ اپنی زمین پر گئے ہوئے تھے۔ جب اِنہیں شہادت کی خبر ملی تو فرمایا : اے اللہ نہ میں اِس کام سے راضی ہوا اور نہ ہی میں نے کسی قاتل کی مدد کی۔ اسی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اُن کی باتوں کو اپنے جواب میں ھُنَیْھَات یعنی ''کمزور باتیں'' فرمایا ۔ اور فرمایا : اَشِرْ عَلَیَّ وَاِذَا خَالَفْتُکَ اَطِعْنِیْ قَالَ اَیْسَرُ مَا عِنْدِیْ اَلطَّاعَةُ ۔(ابن خلدون ص ١٥٢ ج ٢) مجھے مشورہ دیتے رہو اور جب میری رائے تمہاری رائے کے خلاف ہو تو میری بات مان لیا کرو۔ اُنہوں نے عرض کیا میرے پاس آپ کیلیے سب سے آسان چیز اطاعت ہی ہے۔ عباسی صاحب نے یہ بھی زیادتی کی ہے کہ مال کا ترجمہ ''جاگیر'' کیا ہے تاکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ' کو بڑا جاگیردار کہتے چلیں۔ جاگیر کا لفظ عرفًا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ حضرت ابن عباس اور حضرت علی میں فرق مراتب ملحوظ رکھنا چاہیے۔ حضرت ابن عباس کے تین بڑے اُستاد تھے، اُن کے علوم کا بیشتر حصّہ اِن حضرات سے لیا ہوا ہے حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت اُبی بن کعب۔ (تذکرة الحفاظ للذہبی ج ١ ص ٤١) حضرت ابن عباس اور حضرت علی کا یہ رشتہ بھی ملحوظ رکھنا چاہیے۔ عباسی صاحب کی دُوسری تحریرات میں یہ ملتا ہے کہ حضرت علی کو حضرت حسن رضی اللہ عنہما نے بھی یہ مشورہ دیا تھا مگر انہوں نے نہیں مانا۔ میں اِس کے بارے میں اِن ہر دو حضرات کا مکالمہ نقل کرتا ہوں۔ حضرت حسن نے کہا : ''ابا جان جب حضرت عثمان قتل ہوئے اور لوگوں نے آپ کے پاس سحر و شام آنا شروع کیا اور چاہا کہ آپ خلافت کا بار اُٹھالیں تو میں نے مشورہ دیا تھا کہ جب تک ہر جانب سے لوگ متفقہ طور پر آپ کے سامنے سر تسلیم خم نہ کردیں آپ یہ منصب قبول نہ فرمائیں اور پھر جب آپ کو زبیر اور طلحہ کے حضرت عائشہ کے ہمراہ بصرہ کی جانب کوچ