ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2006 |
اكستان |
|
بتلایا۔ حضرت علی نے محمد کو بلایا جو کچھ حضرت عثمان کی اہلیہ صاحبہ نے بیان فرمایا تھا وہ سناکر دریافت کیا۔ محمد نے کہا اِنہوں نے صحیح بیان دیا۔ خدا کی قسم میں اِن کے پاس اسی اِرادہ سے آیا تھا کہ اِنہیں قتل کردوں۔ انہوں نے میرے والد کا ذکر کرکے (اُن کا تعلق) یاد کرایا۔ میں اُن کے پاس سے خدا سے توبہ کرتا ہوا اُٹھ کر چلاگیا۔ خدا کی قسم نہ میں نے اِنہیں قتل کیا ہے نہ میں نے پکڑا (کہ دوسرے ماردیں) حضرت عثمان کی اہلیہ صاحبہ نے کہا یہ سچ کہہ رہا ہے لیکن یہ اِن دونوں کو اندر لایا تھا۔ '' جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اِن باہر سے آنے والے بلوائیوں کے یہ افعال ملاحظہ فرمائے کہ اُنہوں نے آپ کے گھر کا محاصرہ کرلیا مسجد میں جانے سے روک دیا۔ تو آپ نے حضرت معاویہ کو شام اور ابن ِعامر کو بصرہ اور اہل ِکوفہ کو حکم نامہ اِرسال فرمایا کہ وہ لشکر بھیجیں جو اُن لوگوں کو مدینہ سے باہر نکال دے۔ حضرت معاویہ نے مسلمہ بن حبیب کو بھیجا اور یزید بن اسد القشیری بھی ایک لشکر لے کر چل پڑا۔ اہل کوفہ اور اہل بصرہ نے بھی ایک ایک لشکر روانہ کیا۔ جب ان بلوائیوں کو یہ خبر ملی کہ لشکر روانہ ہوچکے ہیں اُنہوں نے حصار جاری رکھنا طے کرلیا۔ یہ لشکر مدینہ کے پاس نہ پہنچنے پائے تھے کہ انہیں راستہ ہی میں شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کی خبر مل گئی۔ (البدایہ ج٧ ص ١٨٠) عباسی نے کہا کہ ''قاتلین سے قصاص نہیں لیا گیا تھا'' (خلافت معاویہ ص ) یہ تاریخی اعتبار سے بے حقیقت ہے کیونکہ سارا سانحہ شہادت آپ کے سامنے ہی ہے۔ اصل میں یہ اُس زمانہ کا سیاسی نعرہ تھا جو خلافت حضرت علی کے خلاف استعمال کیا گیا تھا۔ قاتلینِ عثمان رضی اللہ عنہ میں ایک شخص موت اسود یا سودان یا اسود یا ابورومان یا روما یا حمار تھا جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے اور یہ وہیں دار ہی میں مارا گیا تھا۔ (٢) کلثومُ التجیبی بھی وہی دار ہی میں مارا گیا تھا۔ یہ دو آدمی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے غلاموں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ (٣) تیسرا نام مصنف ابن ابی شیبہ سے معلوم ہوا۔ ابوعمرو بن بدیل الخزاعی۔ وہ اور اُس کے ساتھی بھاگ گئے تھے لیکن راستہ ہی میں پکڑے گئے اور مارے گئے۔