ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2005 |
اكستان |
ۖ من شآء ان یصومہ فلیصمہ ومن شآء ان یترکہ فلیترکہ (بخاری فی الحج واللفظ لہ ، صحیح مسلم فی الصیام ، ترمذی فی الصوم ، ابوداؤد فی الصوم ، موطاء امام مالک فی الصیام ، دارمی فی الصوم و مسنداحمد) '' اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے لوگ دس محرم کے دن کا روزہ رکھا کرتے تھے اوردس محرم کے دن کعبہ کو غلاف بھی پہنایا جاتا تھا پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض فرمادئیے تو رسول اللہ ۖنے فرمایا کہ جو شخص دس محرم کا روزہ رکھنا چاہے وہ رکھ لے اور جو چھوڑنا چاہے وہ چھوڑدے''۔ عن عائشة رضی اللّٰہ عنہا قالت کان یوم عاشورآء تصومہ قریش فی الجاھلےة وکان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصومہ فلما قدم المدینة صامہ وأمربصیامہ فلما فرض رمضان ترک یوم عاشورآء فمن شآء صامہ ومن شآء ترکہ۔(صحیح بخاری فی الصیام واللفظ لہ صحیح مسلم فی الصوم) ''حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ قریش مکہ زمانۂ جاہلیت میں دس محرم کے دن روز ہ رکھتے تھے اور رسول اللہ ۖ بھی روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب آپ ہجرت فرماکر مدینہ تشریف لائے تووہاں خود اس کاروزہ رکھا اوردوسروں کوبھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو دس محرم کے دن روزہ رکھناچھوڑ دیا جس کی خواہش ہوتی اس دن روزہ رکھتا اورجو چاہتا اس دن روزہ نہ رکھتا ''۔ فائدہ : دس محرم کا روزہ رکھنا ابتدائِ اسلام میں رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے فرض تھا بعد میں اس کے فرض ہونے کی حیثیت منسوخ اورختم ہوگئی جس کی تائید مندرجہ بالا احادیث سے ہوتی ہے اوربعض دوسری احادیث سے بھی یہی مفہوم ظاہر ہوتا ہے مگر اس روزے کے اہم فضائل اوراس کا سنت ومستحب ہونا اب بھی