ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2003 |
اكستان |
|
عزیزا یاد کر وہ دن جو ملکُ الْمَوتْ آوے گا نہ جاوے ساتھ تیرے کو اکیلا تو نے جانا ہے نہ بیلی ہو سکے بھائی نہ بیٹا باپ نَے مائی تو کیوں پھرتا ہے سودائی عمل نے کام آنا ہے جہاں کے شغل میں شاغل ، خدا کی یاد سے غافل کریں دعوٰی جو یہ دُنیا مِرا دائم ٹھکانا ہے فرشتہ روز کرتا ہے مَنادِی چار کونوں پر محلّاں اُچّیاں والے ترا گوریں ٹکانا ہے کہاں وہ ماہِ کنعانی ، کہاں تختِ سُلیمانی! گئے سب چھوڑ یہ فانی اگر ناداں و دانا ہے نظر کر دیکھ خویشوں میں جو ساتھی کون ہے تیرا اُنھوں نے اپنے ہاتھوں سے اکیلے کو دَبانا ہے نظر کر ماڑیاں خالی کہاں وہ ماڑیاں والے سبھی کوڑا پَسَارا ہے دغابازی کا بانا ہے غلام ایک دن نہ کر غلفت حیاتی پر نہ ہو غَرّہ خدا کو یاد کر ہر دم جو آخر کام آنا ہے مولاناغلام رسول صاحب کے متعلق حضرت شاہ عبدالقادر صاحب رائے پوری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : ''بڑے عاشق تھے۔ ع''دِلا غافل نہ ہو یک دم ''یہ انھیں کے اشعارہیں، پنجابی تھے ، ان کی اُردو بھی ایسی ہی ہے، رسول اکرم ۖکے عشق میں اِن کے بڑے درد ناک اشعار ہیں ،صحبت میں یہ اثر تھا کہ جو ایک مرتبہ پاس بیٹھ جاتا ساری عمر اس کی تہجد بھی ناغہ نہ ہوتی ،چہ جائیکہ فرض نماز،ہندوؤں میں جہاں وعظ کر دیتے سب کے سب مسلمان ہوجاتے، ایک دفعہ استنجے کے لیے ہاتھ میں ڈھیلا لیے کھڑے تھے کچھ ہندوعورتیں قضائے حاجت کے لیے بستی کے باہر جنگل کو جارہی تھیں ڈھیلا زور سے زمین پر پھینکا اور فرمایا ''الا اللّٰہ ''وہ سب ہندو عورتیں '' لا الٰہ الا اللّٰہ لاالٰہ الا اللّٰہ''پڑھنے لگیں اور گھر تک پڑھتی گئیں اورمسلمان ہوگئیں ۔