ماہنامہ انوار مدینہ لاہورستمبر 2002 |
اكستان |
|
فنھضت فلم تکد تخرج ید یھا فلما استوت قا ئمة اذا لأثر ید یھا غبارساطع فی السماء مثل الدخان فاستقسمت بالأزلام فخرج الذی أکرہ فنادیتھم بالأمان فوقفوا فرکبت فرسی حتی جئتھم ووقع فی نفسی حین لقیت ما لقیت من الحبس عنھم أن سیظھرأمررسول اللّٰہ ۖ ۔ (بخاری و مسلم) ابن شہاب زہری رحمہ اللہ حضرت سراقہ بن مالک کا خود اپنا بیان نقل کرتے ہیں کہ ہمارے پاس کفار قریش کے قاصد یہ پیغام لے کر آئے کہ جو شخص رسول اللہ ۖ اور ابو بکر کو قتل کرے یا قید کرے تو ا س کو ان میں سے ہر ایک کے عوض میں دیت کے برابر مال ملے گا ۔یہ کہتے ہیں کہ ابھی صفحہ نمبر 37 کی عبارت کچھ دیر گزرنے نہ پائی تھی کہ میں اپنی قوم بنی مدلج میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص سامنے آیا او ر کہنے لگا اے سراقہ دریا کے کنارے میںنے ابھی ابھی کچھ لوگ دیکھے ہیں جن کے متعلق میرا غالب گمان یہی ہے کہ وہ محمد (ۖ) اور ان کے ساتھی ہوں گے ۔اس کے پتہ دینے پر میں سمجھ تو گیا کہ ہوں نہ ہوں یہ وہی ہیں مگر (یہ سوچ کر کہ میں تنہا جا کر ان کو پکڑلوں اور پورا انعام خود لے لوں بات ٹالنے کے لیے ) میںنے اس سے کہہ دیا وہ نہیں ہو سکتے شاید تو نے فلاں فلاں کو دیکھا ہوگا جو ہمارے سامنے گئے ہیں ۔پھر ذرا سا وقفہ دے کر میں اُٹھ کھڑا ہوا اوراپنے گھر جاکر اپنی باندی سے کہا کہ میرا گھوڑا باہر نکالے جو کہ ایک ٹیلے کے پیچھے تھا اور اس کو لے کر کھڑی رہے ادھر میں اپنا نیزہ لے کر گھر کی پشت کی طرف سے نکلا اور اس کا پھل زمین کی طرف کر دیا اور اس کے اوپر کے حصہ کو نیچا کر دیا (تاکہ کسی کی نظر نہ پڑے اور وہ ساتھ نہ ہولے اور انعام میںشریک نہ ہو جائے یا سبقت نہ لے جائے )یہاں تک کہ میں اپنے گھوڑے پر آکر سوار ہو گیا اور اس کو تیز کر دیا کہ وہ جلد ان کو جا پکڑے ۔جب میں ان کے نزدیک پہنچا تو میرا گھوڑا دفعةً پھسلا اور میں اس کے اوپر سے جاپڑا۔کھڑے ہوکر میں نے فال کے تیر نکالے اور ان کا پانسا گھمایا تاکہ یہ دیکھوں کہ میں ان کو نقصان پہنچا سکوں گا یا نہیں۔فال میں جو بات نکلی وہ وہ تھی جو میں نا پسند کرتا تھا مگر پھر بھی میںنے اس کی کچھ پروا نہ کی اور پھر گھوڑے پر سوار ہو کر ان کے اتنے نزدیک پہنچ گیا کہ میں نے رسول اللہ ۖ کی قرآن پڑھنے کی آواز سنی۔آپ کسی طرف التفات نہ فرماتے تھے جبکہ ابو بکر بار بار مڑ مڑ کر دیکھ رہے تھے ۔جب میں اتنے قریب جا پہنچا تو (اس مرتبہ ) میرے گھوڑے کے دونوں ہاتھ زمین میں دھنس گئے یہاں تک کہ گھٹنوں تک جا پہنچے اور میں پھر اس پر سے گر پڑا ۔ میں پھر اُٹھ کھڑا ہوا اور گھوڑے کوزور سے ڈانٹا مگر وہ اپنے ہاتھ زمین سے نہ نکال سکا ۔پھر جب وہ بمشکل سیدھا کھڑا ہوا توزمین سے دھوئیںکی طرح ایک غبار نکلا ۔میں نے پھر اپنے فال کے تیر گھمائے مگر وہی بات نکلی جو مجھے پسند نہ تھی ۔ اس پر میںنے امن کے لیے آواز دی ۔وہ ٹھہرگئے میں گھوڑے پر سوار ہو کر جب با لکل ان کے پاس پہنچ گیا تو اپنی پیش آمدہ رکاوٹوں کی وجہ سے میرے دل میں اب یہ یقین ہو گیا کہ آپ کا دین ضرور غالب ہو کر رہے گا ۔