ماہنامہ انوار مدینہ لاہورستمبر 2002 |
اكستان |
|
مسز طاہرہ کوکب : ایم اے /ایم فل ممبر سٹی کونسل اور ایجوکیشن کمیٹی پاکستان میں مذہبی عدم رواداری کا فلسفہ، اسباب اور حل اُسوۂ حسنہ کی روشنی میں مغرب میں انسانی زندگی کو دینیت اور لادینیت روحانیت اورمادیت مذہب اور ریاست کی مکمل اورمطلق صفحہ نمبر 42 کی عبارت ثنویت میں تقسیم کیا گیا۔ اس سے پہلے انسان کی تمام تر زندگی کی تشکیل خواہ وہ پرائیویٹ ہو یا معاشرتی سب مذہبی عقائد پر ہی ہوتی تھی، مذہبی اقدارو اُصول زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہوتے تھے۔ عقائد ، اخلاق ، آداب و قوانین اور رسوم و روا ج سب ایک ہی کل کے مربوط اجزا سمجھے جاتے تھے ۔ اسلام میں رواداری کا مفہوم : قرآ ن نے دین کے معاملے میں مکمل آزادی کا اعلان کیا اس آزادی کا مفہوم مشہور صدر روز ولٹ کی اعلان کردہ ''چار آزادیوں '' سے کہیں زیادہ وسیع ہے ۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر کسی سلطنت میں کوئی قوم یا ملت اپنے شخصی قانون کی پیروی پر مصر ہو تو اسے اس کی پوری آزادی ہونی چاہیے اور اس آزادی کو برداشت کرنا چاہیے اگرچہ دوسرے حقوق کی طرح اس حق کا استعمال بھی چند حدود کے اند ر امحصور ہو گا ۔اگریہ بنیادی اخلاقی اقدار کے خلاف ہو یا معاشرے کے امن اور ملک کے دفاع میں خلل انداز ہو تو اس پر عمل کرنے کی کلی ممانعت ہوگی خواہ وہ کسی ملت یا قوم کے مذہب کا جزوہی کیوں نہ ہو مثلاًایک اسلامی مملکت میں کسی بیوہ کو اپنے خاوند کی چتا پر جلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی خواہ کسی ملت کے نزدیک یہ عمل کتنا ہی پسندیدہ کیوں نہ ہو۔اسی طرح ہر حالت میںبلا تفریق مذہب و ملت ربا ،جوا اور زنا مکمل طورپر حرام ہوں گے اس قسم کی حدود اور پابندیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے مختلف ملتوں اور قوموں کو اپنے عقائد و اعمال کے مطابق زندگی بسر کرنے کی مکمل آزادی ہوگی ۔ اس بنیادی اُصول کا جواز قرآن حکیم کی اسی آیت کہ ''دین اسلام قبول کرنے کے لیے کسی پرزبردستی نہیں ''سے مستنبط ہے۔ عدم رواداری کافلسفہ اور نقصانات : انسان کی جب قوت برداشت جو اب دے جاتی ہے تو اس وقت وہ جنون کی اقسام میں سے ایک قسم کا شکار ہوتا ہے اور اس عدم رواداری کے