ماہنامہ انوار مدینہ لاہورستمبر 2002 |
اكستان |
|
اس موقع پر رسول اللہ ۖ کے خادم خاص کی گواہی بھی ملاحظہ کر لیں !حضرت انس آپ کے خادم خاص تھے ،بچپن سے جوانی تک خدمت کی ۔ فرماتے ہیں آپ ۖ نے مجھے کوئی ایسا کام نہیں بتایا جس میں خود شریک نہ ہوئے ہوں یا وہ کام میری طاقت سے زیادہ ہو اور اگر کبھی کوئی کام غلط ہو گیاتو کبھی غصہ نہیں فرمایا۔ مذہبی رواداری اور علما ء کی ذمہ داری ! برداشت علامات بنوت میں سے ایک علامت ہے ۔علماء انبیا ء کے وارث ہیں ارشاد نبوی ۖ ہے'' العلماء صفحہ نمبر 46 کی عبارت ورثة الانبیاء '' علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ اُمت محمدیہ کی تاقیامت رہنمائی واصلاح علماء کے کاندھوں پر ڈالی گئی ہے لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ علماء میں یہ صفت و خوبی ناپید ہوتی جارہی ہے ۔مسلمان غیر مسلم کو، ایک مکتبہ فکر دوسرے مکتبہ فکر کو، ایک عالم دوسرے عالم کو برداشت کرنے پرتیارنہیں ہے۔ اس انارکی کے نتیجہ میں آج تک علماء متحد نہ ہو سکے اور اس ملک میں اسلام کا نفاذ نہ ہوسکا۔معاشرہ بد سے بدتر ہوتاجارہا ہے اسی برصغیر کے ایک بہت بڑے عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی ہیں ان کے بارے میں لکھا ہے : ''حضرت تھانوی کی عالی حوصلگی ہی کا نتیجہ تھا کہ دشمنوںکی گالیاں سنتے رہے مگر کبھی ایک جملہ ان کے خلاف لکھنا تک برداشت نہیں تھا ۔ہندوستان کے ایک عالم کے ماننے والوں اور خود انہوں نے بھی بہت کچھ مولانا کے خلاف لکھا ،اذیتیںدیں مگر برداشت کرتے رہے ۔خود لکھتے ہیں ''میں اپنے مخالفین اور موذیوں کے جذبات کی بھی رعایت کرتا ہوں ان پرنیک نیتی کا بھی احتمال رکھتا ہوں اور صبر تو ہر حال میں کرتا ہوں ان مولانا کے جواب میں کبھی ایک سطر بھی نہیں لکھی کافر خبیث ملعون سب کچھ بنتا رہتا ہوں ۔'' اسے کہتے ہیں سنجیدگی اور عالی ظرفی ،نفسِ مسئلہ کی تحقیق تو ضروری ہے مگر کسی کی ذات کو نشانہ طعن و تشنیع بنانا یہ کوئی اچھا کام نہیں اور ایک ہمارا یہ زمانہ کہ بیٹا نہ باپ کی برداشت کرتا ہے اور نہ شاگرد استاد کی، کوئی ایک کہتا ہے تو دس سنتا ہے ۔تہذیب و شائستگی متانت و سنجیدگی کانام ونشان مٹتا جا رہا ہے ۔حضرت تھانوی دوسروں کی تنقید و تنقیص سے گھبراتے نہیں تھے بلکہ فرمایا کرتے تھے کہ ممکن ہے تنقید کرنے والے کی نیت امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی ہواور اگر اس کی نیت ناحق رنج دینے کی ہو تواس نے اپنی عاقبت خراب کی ہم کو صبر کا ثواب ملا اور اسی کے ساتھ فرمایا کرتے ''نیزایسے واقعات سے بعض اوقات اپنی کوتاہیوں پر نظر ہوکر اصلاح کی توفیق ہو جاتی ہے اور اگر یہ بھی نہ ہو تو کم ازکم معتقدین کی عنایت سے جو عجب و کبرپیدا ہو گیا تھا یا پیدا ہوسکتا تھا اس سے ازالہ یاانسداد ہو جاتا ہے۔''