ماہنامہ انوار مدینہ لاہورستمبر 2002 |
اكستان |
|
ہے اس سے پہلے اسے زوال نہیں ہواوہ جاری رہا تو آج کل ایسی چیزیں ہیں کہ انسان ان کو پڑھ لیتا ہے یا سن لیتا ہے تو اس کا ذہن اس طرف چل پڑتاہے اور متاثر ہوجاتا ہے پھروہ ایسی باتیں کرتا ہے اس واسطے مجھے یہ بتانا ضروری معلوم ہوا کہ اسلامی حکومت اور قانون یہ اسلامی طرز پر تیرہ سو سال سے زیادہ چلتا رہا ہے وہ خلافت جسے خلافت نبوة کہتے ہیں خلافت علی منھاج النبوة کہتے ہیں خلافت راشدہ کہتے ہیں وہ تیس برس رہی ہے ۔ خلیفہ راشدحضرت علی ، حضرت عقیل کی رائے : حضرت عقیل حضرت علی کے بھائی ان کے پاس آئے اورکہا کہ مجھے پیسے چاہئیںمیں مقروض ہوں قرض چڑھ گیا ہے ۔انھوں نے کہا کہ ٹھہرو میرا جو وظیفہ آئے گا جومیں سالانہ لیتا ہوں تو اس میں سے میں آپ کو دوں گا۔ انہوںنے پوچھا وہ کتنا ہوگا؟انھوں نے کہا وہ اتنا ہوگا۔ انھوں نے کہا میرا اس میں کام ہی نہیںچلے گا مجھے تو آپ بیت المال سے زیادہ دلوائیں۔ حضرت علی نے فرمایا کہ بیت المال میں سے تو جن کا حق ہے ان کو ملے گا جو کام کر رہے ہیں جو لڑ رہے ہیں جو لشکر میں ہیں اُن کو ملے گا ،آپ کو تو میں نہیں دے سکتا تو کہنے لگے کہ پھر یہ کیسے ہوگا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ کا جی چاہتا ہے کہ میں جائوں اور بازار کی دکانوں کے تالے توڑوں اور ان میں سے مال نکال کر آپ کے حوالے کردوں ،ایسے کیسے ہو سکتا ہے ۔حضرت عقیل بڑے بھی بہت تھے بیس سال بڑے تھے وہ خفا ہو گئے اور کہنے لگے میں پھر ُادھر چلا جائوں گاحضرت معاویہ کے پاس ۔انھوں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ اُدھر چلے جائیں تو حضرت معاویہ کے والد تھے حضرت ابوسفیان ، حضرت ابو سفیان کی بہن جو تھیں وہ حضرت عقیل سے بیاہی ہوئیں تھیں تو حضرت عقیل (حضرت معاویہ کے)پھوپھا تھے توعقیل کو وہاں جانا کوئی مشکل نہیں تھا وہاں پہنچ گئے ۔وہاں جا کر حال بتایا کہ یہ صورت ہے مجھے پیسے چاہئیں انھوں نے کہہ دیا ٹھیک ہے لے لیجئے، یہ لیجئے یہ لیجئے ۔پھر حضرت معاویہ نے چاہا کسی مجلس میں کہ وہ ذرا سا فرق بتائیں کہ ان کے بھائی نے کیا کورا سا جواب دے دیا تھا او ر میں نے ان کے لیے یہ کیا تو انھوں نے ان سے پوچھاکہ آپ وہاں گئے تھے تو انھوں نے کیا دیا اور ہم نے کیا سلوک کیا یہ بتلائیے وہاں میں اور یہاں میں آپ نے کیا فرق پایا اُنھوں نے کہا کہ میں نے وہاں میں اور یہاں میں یہ فرق پایا کہ وہاں بالکل ایسا حال ہے جیسے رسول اللہ ۖ کے زمانے میں تھا سوائے اس کے کہ خود رسول اللہ ۖ وہاں موجود نہیں ہیں پھر انھوں نے کہا انھوں نے آپ کے ساتھ جو کیا تھا اور ہم نے جو کیا تھا یہ بتلائیے تو انھوں نے کہا کہ دیکھو میں بھائی کے پاس گیا تھا تو میں نے بھائی سے دنیا طلب کی تو اس نے کہا کہ میں آخرت کو ترجیح دیتا ہوں دنیا کی بات نہیں کرتا اور یہاں میں تمھارے پاس