ماہنامہ انوار مدینہ لاہورستمبر 2002 |
اكستان |
|
دیکھ رہے ہیں حکیم الامت کے فہم کا عالم ، کتنا اونچا سوچا کرتے تھے اوردشمنوں کے تیر و نشتر کو اپنے لیے کس طرح کا رآمد ثابت کرتے تھے ۔یہ تھی علمی اور مصلحانہ شان ،برا ماننے اور برا کہنے کا آخر حاصل ہوتا بھی کیا۔ اس طریق کار میں کتنی بدگمانیوں سے نجات مل گئی اورکتنی نیکیاں حصے میں آگئیں ۔ایک ہمارا یہ دورہے کہ اچھی چیزوں کے بھی لوگ بُرے پہلوتلاش کرتے ہیں اور اپنے بہی خواہ اور دوستوں کی نیتوں پرحملے سے اجتناب نہیں کرتے اور پھر اسے بنیاد بنا کر وہ وہ صلواتیں سناتے ہیں کہ خدا کی پناہ ،نہ تہذیب و تمدن کالحاظ ہوتا ہے اور نہ علمی وقار کا ۔ صفحہ نمبر 47 کی عبارت رواداری پیدا کرنے کا طریقہ : انسان کا ماحول یا اس کی تربیت اسے غیر متوازن بنادیتی ہے۔ اسلام انسان کی شخصیت میں ایک توازن قائم رکھنا چاہتا ہے اگر کوئی شخص اپنی اصلاح کرناچاہے تو اسے اصلاح کی طرف رہنمائی بھی کی گئی ہے۔ ارشاد نبوی ہے اذا غضب احد کم وھو قائم فلیجلس۔''جب تم میں سے کوئی عدم رواداری برداشت و غصہ کا شکار ہو اگر کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اس طرح اس کا غصہ قابو میں آجائے گا۔'' اگرہم معاشرہ میں رواداری ،امن ، محبت اور اخو ت کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے ۔یہ یاد رکھا جائے مسلکی اختلافات کو سو سال گزر چکے ہیںآج تک کوئی کسی کو ختم نہیں کرسکا ہے اورنہ کر سکے گا ۔ہر مکتبہ فکر کو تہذیب کے دائرہ میں رہ کر اپنی بات پیش کرنے کا حق ہے لیکن کسی بھی طبقہ کے اکابر کو گالیاں دینے یا ان کے مقام کو مجروح کرنے سے باہمی تصادم کے فروغ کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا اور اس تصادم سے ملک وملت اسلامیہ کی بدنامی ہوتی ہے ۔ دشمن پہلے ہماری سرحدوں تک تھا اب سرحدوں کے اندر آچکاہے۔ اس موقع پرمولانا اشرف علی تھانویکے ایک مشہور قول ''اپنا مسلک چھوڑونہیں دوسرے کا مسلک چھیڑونہیں '' پر عمل کرکے آپس میں رواداری اور اخوت کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اُسوۂ حسنہ اور عشق رسول ہم سے اسی کا تقاضا کرتا ہے ۔میں اپنی بات ایک غیر مسلم منوہر لال کے ان اشعار پر ختم کرتی ہوں ۔ آقا جو محمدۖ ہے عرب و عجم کا بے مثل نمونہ ہے مروت کا کرم کا حاصل ہے جنھیں تیرے غلاموں کی غلامی لیتے نہیں وہ نام کبھی قیصر وجم کا کہتے ہیں جسے اہل جہاں احمد مرسل دریا ہے وہ الفت کا وہ منبع ہے کرم کا کیا دل سے بیاںہو تیرے اخلاق کی توصیف عالم ہو ا مداح تیرے لطف و کرم کا