ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2017 |
اكستان |
|
دوسری طرف پاکستان کے نظامِ حکومت میں کفار کے ا لہ کار منافقین غیر معمولی اثرو رُسوخ رکھتے ہیں ان کے سینہ کی جلن صرف دینی مدارس ہیں، مرکزی حکومت ہو یا صوبائی ان ہی کی ڈگر پر چلتے ہوئے آئے دن دینی جامعات و مدارس کے کام میں رُکاوٹیں ڈالتے رہتے ہیں۔ عیدالاضحی کے موقع پر مسلمان اپنے قربانی کے جانورو ں کی کھالیں بڑی تعداد میں دینی مدارس کو عطیہ کرتے چلے آرہے ہیں مگر اب گزشتہ دس پندرہ برس سے مدارس کے لیے اس عوامی مہم میں حکومتیں رکاوٹیں ڈال رہی ہیں پیشگی اجازت ناموں کی شرط لگا کر ان کا حصول آسان بنانے کے بجائے مشکل بنادیا پھر مشکلات سے گزر کر جو جامعات و مدارس ان کو حاصل کر لیتے ہیں ان کے ساتھ جو روّیہ صوبائی حکومتوں کا ہوتا ہے وہ بھی ملاحظہ فرمالیجئے ۔ اس سال جامعہ مدنیہ جدید کے صدر دروازے پر قربانی کی کھالوں کے حصول کے لیے جو رضاکار طلباء بیٹھے ہوئے تھے اُن کے پاس پہلے ہی روز ایک گاڑی پر سوار چار پانچ پولیس اہلکار آئے اور درجِ ذیل گفتگو کی پھر آدھے گھنٹے کے بعد تین گاڑیوں پر سوار بڑی تعداد میںمزید اہلکار آئے اور پہلوں جیسوں کے لب و لہجہ میں کہا : تم یہاں کیوں بیٹھے ہو یہ کھالیں یہاں کیوں پڑی ہیں ؟ رضا کار : ہم کھالیں جمع کر رہے ہیں۔ پولیس : تم ایسا نہیں کر سکتے ہم کھالیں اُٹھا کر لے جائیں گے ! ! رضاکار : ہمارے پاس یہ سرکاری اجازت نامہ ہے دیکھ لیں ۔ پولیس : ہمارے نزدیک اس کی کچھ حیثیت نہیں ہے ! ! ! رضاکار : یہ ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے حاصل کیا گیا ہے۔ پولیس : ہماری ایجنسی اس کو تسلیم نہیں کرتی ! بہت ساری ایجنسیاں ہیں وہ ا س کونہیں مانتیں ! ! ! ! پولیس نے لگائے گئے فلیکس اُکھاڑ کر اپنی گاڑی میں ڈالتے ہوئے دھمکایا کہ