ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2017 |
اكستان |
جب پیت بھئی تب لاج کہاں سنسار ہنسے تو کیا ڈر ہے دُکھ درد پڑے تو کیا چنتا اور سکھ نہ رہے تو کیا ڈر ہے انسان جو کہ اشرف المخلو قات ہے اُس کے اندر ایسا عشق ہونا چاہیے جو نہ بُلبل میں ہو نہ پروانے میں اور نہ کسی کو ایسا عشق نصیب ہو ۔ میرے بزرگو ! روزہ اور حج یہ دو عبادتیں صفتِ'' محبوبیت'' کی بنا ء پر مقرر کی گئیں نماز وزکٰوة صفتِ ''مالکیت'' کی بناء پر ۔ اب دیکھو اگر کوئی شخص کسی سے محبت کرتا ہے پھر دوسروں سے بھی محبت رکھتا ہے تو اُسے جھوٹا کہتے ہیں،محبوب کے علاوہ سب کو چھوڑ دینا محبت کا تقاضا ہے( فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَةِ رَبِّہ اَحَدًا) اللہ تعالیٰ کا جمال گوارا نہیں کرتا کہ دوسرے سے بھی محبت کی جائے۔ پہلی منزل محبت کی ہے کہ محبوب کے سوا سب سے منہ پھیر لو ،روزہ میں کھانا پینا اور بیوی سے ہم بستر ی کو چھوڑ دیتے ہیں ،یہ عام لوگوں کے لیے ہے مگر خواص کا روزہ یہ ہے کہ تما م گناہوں کو چھوڑ دیں اور اخص الخواص کا روزہ یہ ہے کہ ذاتِ مقدسہ کے سوا سب کو چھوڑ دیںغیر اللہ کو سامنے بھی نہ لائیں، یہ عشق کی پہلی منزل ہے ۔ رمضان گزرا شوال سے عشق کی دوسری منزل شروع ہوئی،دوسری منزل یہ ہے کہ محبوب کے دارودیار کی طرف توجہ کی جائے،جہاں اُس کا کوچہ ہے، جہاںاُس نے دوسروں کو نوازا ہے وہاں جایا جائے اُس کے درو دیوار کے پاس پہنچا جائے اور جمالِ محبوب کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ،اُس کے گھر کے اِرد گرد یوانہ وار پھرا جائے اُس کے درودیوار سے چمٹ کر اُس کے سنگِ درکو بوسہ دیا جائےاَمُرُّ عَلَی الدِّیَارِ دیَارِ لَیْلٰی اُقَبِّلُ ذَا الْجِدَارِ وَ ذَا الْجِدَارَا وَمَا حُبُّ الدِّیَارِ شَغَفْنَ قَلْبِیْ وَلَکِنْ حُبُّ مَنْ نَزَلَ الدِّےَارَا