ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2017 |
اكستان |
|
جو عبادات محبت کی وجہ سے ہوتی ہیں اُن کا طریقہ الگ ہے اور جو مالکیت کی وجہ سے ہوتی ہیں اُن کا طریقہ الگ،مالکیت میں آداب وسنن کا لحاظ ضروری ہے،عقل سے سوچ بچار کرکے ہر کا م کو کیا جائے، دو عبادتیں نماز اور زکٰوة صفتِ مالکیت کے ماتحت مقرر فرمائیں۔نماز میں مِنْ اَوَّلِہِ اِلٰی اٰخِرِ ہر جز و میں آداب کی ضرورت ہے اِس میں ذرا سی بھی بے ادبی ہو گی تو عتاب ہو گا اسی طرح محبوبیت کا تقاضا ہے کہ محبوب کے طریقہ پر عمل کیا جائے موسیا آدابِ داناں دیگر اند سوختہ جاں ور داناں دیگر اند ١ محبت کا تقاضا یہ ہے کہ بے خودی پیدا ہوجائے،اس راہ میں جتنی بے خودی ہوگی اُتنا ہی کمال ہوگا عشق چوں خام است باشد بستہ ناموس و ننگ پختہ مغزانِ جنوں را کے حیا زنجیر پاست ٢ محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی عقل ،نزاکت ،آراستگی اور ہوش سے نکل جائے عشق جب پورا ہوگا کہ اپنے آپ کوپروانے کی طرح محبوب پر نثار کردے اے مرغِ سحر عشق ز پروانہ بیا موز کاں سوختہ جاں شدو آواز نیامد ٣ عشق میں جس قدر بے خودی پائی جائے اُسی قدرمحمود ہے ۔ ع عاشقاں را مذہب و ملت جُدا است ٤ ------------------------------١ اے موسٰی ! دانائوں کے آداب اور طرح کے ہیں ، دانائوں میں دل جلے لوگ بھی اور طرح کے ہوتے ہیں۔ ٢ کچا عشق عزت و شرم میںبند ہوتا ہے،جنون میں پختہ لوگوں کے لیے شرم پائوں کی زنجیر کب ہو سکتی ہے ؟ ٣ اے سحری پرندے (اذان دینے والا مرغ) عشق پروانے سے سیکھ کہ جل کر جان دے دیتا ہے اور آواز نہیں نکالتا۔ ٤ عاشقوں کا ملت و مذہب اور طرح کا ہوتا ہے۔