ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2017 |
اكستان |
|
قربانی کیوں کی جاتی ہے ؟ حدیث پاک میں آتا ہے : ''صحابہ کرام نے حضور ۖ سے عرض کیا کہیا رسول اللہ ۖ مَا ھٰذِہِ الْاَضَاحِیُّ یہ قربانی کا عمل ہم کیوں کرتے ہیں ؟ حضور ۖ نے فرمایاسُنَّةُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْمَ یہ تمہارے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ۖ یہ تو پتہ چل گیا کہ یہ جوہم قربانی کرتے ہیں یہ ہمارے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے اب یہ بھی بتا دیجئے کہ ہمیں اس قربانی پراجرکیا ملے گاقَالُوْا فَمَا لَنَا فِیْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہْ تو حضور اکرم ۖ نے ارشاد فرمایابِکُلِّ شَعْرَةٍ حَسَنَة کہ دیکھو قربانی کے جانور کے جو بال ہیں اُس کے ہر بال کے بدلے میں تمہیں ایک نیکی ملے گی، صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیافَالصُّوْفُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ بعض جانور توایسے ہیں کہ جن کی جلد پر بال ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں کہ جن کی جلد پر بال نہیں اُون ہے تو حضور ۖ نے فرمایا کہ پھر کیا ہوا؟ بِکُلِّ شَعْرَةٍ مِنَ الصُّوْفِ حَسَنَة جن جانوروں کی کھال پر بال نہیں ہیں بلکہ اُون ہے تو اُون کے ہر ہر رویں پر اللہ کی طرف سے نیکیاں ملیں گی۔قربانی کے جانور پُل صراط پرسواری ہوں گے : ٭ حدیث شریف میں ہے کہ آنحضرت ۖ نے فرمایا : ''تم قربانی کے جانوروں کو موٹا تازہ کرو کیونکہ وہ تمہارے لیے پل صراط پر سواری ہوں گے۔'' ٭ ایک حدیث حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ آنحضرت ۖ نے فرمایا :مَا عَمِلَ آدَمِیّ مِنْ عَمَلِ یَوْمِ النَّحْرِ اَحَبَّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ اِھْرَاقِ الدَّمِ ۔دس ذی الحجہ یعنی قربانی کے دن انسان کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کو قربانی کا خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے۔''اِنَّہُ لَیَأْتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ بِقُرُوْنِھَا وَ اَشْعَارِھَا وَ اَظْلَافِھَا ''بے شک وہ قربانی قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت آئے گی یعنی جیسے دنیا میںتھی اسی طرح صحیح سالم ہوکر آئے گی تاکہ اُس کے ہرعضو کا کفارہ ہو اور پُل صراط پرسواری بن سکے، آگے فرمایاوَاِنَّ الدَّمَ لَیَقَعُ مِنَ اللّٰہِ بِمَکَانٍ قَبْلَ