ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2017 |
اكستان |
|
جو شخص وسعت کے باوجود قربانی نہیں کرتا حضور ۖ اُس سے ناراض ہوتے ہیں چنانچہ حدیث میں آتا ہے آپ فرماتے ہیں :مَنْ وَّجَدَ سَعَةً لِاَنْ یُّضَحِّیَ فَلَمْ یُضَحِّ فَلَا یَحْضُرْ مُصَلَّانَا۔ ١ ''جو شخص قربانی کی وسعت ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔ ''قربانی کس پر واجب ہوتی ہے ؟ سب سے پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ قربانی کس پر واجب ہوتی ہے ؟ اس کے متعلق عرض ہے کہ قربانی ایک توہر اُس عورت اورمرد پر واجب ہے جس پر زکوة فرض ہے، عورت کے پاس اگر اِتنی مالیت کے سونے کا زیور ہے کہ جتنی مالیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی خرید سکتے ہیں جو آج کل تقریبًا چالیس ہزار روپے کی آجاتی ہے تواُس پر زکوة آئے گی اورجس پر زکوة آئے گی اُس پر قربانی بھی آئے گی اوردوسرا وہ شخص ہے خواہ مرد ہو یا عورت جس کے پاس اتنی مالیت تو نہیں ہے، نہ کیش کی شکل میں نہ چاندی کی شکل میں نہ سونے کی شکل میں ،زیور وغیرہ بھی نہیں ہے اُس کے پاس ،کیش رقم بھی نہیں ہے اُس کے پاس، مالِ تجارت بھی نہیں ہے اُس کے پاس تواگرچہ اِس صورت میںاُس پر زکوة تو فرض نہیں ہوگی لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اُس کے پاس زائد اَز ضرورت اتنا سامان بھی ہے یا نہیں ہے کہ جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہوجاتی ہے، زائد اَز ضرورت سامان میں شوقیہ لیپ ٹاپ، کمپیوٹر ہوگیا، زائد اَز ضرورت موبائل ہوگئے یا ضرورت پانچ چھ ہزار والے موبائل سے پوری ہوجاتی ہے لیکن رکھا ہوا ہے تیس پینتیس ہزار والا موبائل یا سینکڑوں سی ڈیز ہوگئیں یا وی سی آر ہو گیا یا اتنے زیادہ بھرے ہوئے کپڑے ہیں کہ وہ پہننے کوہی نہیں آتے یا اتنے زیادہ برتن ہیں جو کبھی کام ہی نہیں آتے، تو اگر اُس کی ملکیت میںایسی چیزیں ہیں کہ ان کواگرہم جوڑیں اور ان کی قیمت پتا کریں اور وہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر پہنچ جاتی ہو توپھر ایسے مرد و عورت پر اگرچہ زکوة تو فرض نہیں ہوگی لیکن صدقۂ فطر اور قربانی واجب ہوگی اور یہ مرد و عورت زکوة بھی نہیں لے سکتے، زکوة لینا حرام، قربانی اور صدقۂ فطر واجب۔ ------------------------------١ الترغیب والترہیب ج٢ص١٠٠