ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2017 |
اكستان |
|
اہلِ میت کے لیے کھانا : حضرت جعفرِ طیَّار رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوۂ موتہ میں شہید ہوگئے جب ان کی شہادت کی خبر پہنچی تو آنحضرت ۖ نے فرمایا جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانے کا انتظام کردو وہ اپنے غم میں مشغول ہیں خود انتظام نہیں کر سکتے۔ ١ پریشان حال غم زدہ اہلِ خانہ کے لیے یہ امداد اور ہمدردی کی صورت تھی جو آنحضرت ۖ نے تجویز فرمائی مگر ہم نے اس کو رسم بنا لیا اس کے قواعد مقرر کر لیے کہ فلاں کے یہاں سے میت کا کھانا آسکتا ہے فلاں کے یہاں سے نہیں، نرینہ اولاد کی طرف سے کھانا آنا چاہیے، لڑکیوں یا لڑکی کی سسرال وغیرہ کے یہاں سے نہیں آسکتا وغیرہ وغیرہ اور لطف یہ ہے کہ گھر والوں کے لیے تو کھانا پکانا ممنوع قرار دے لیا اور تقسیم کرنے کے لیے کھانا پکانے کو ضروری سمجھ لیا چنانچہ ان تین دنوں میں اہلِ میت کی طرف سے کھانا تقسیم کرایا جاتا ہے، اس کے بعد کہیں سوئم ہوتا ہے کہیں چہارم کہیں تیر ھویں ہوتی ہے کہیں چہلم وغیرہ وغیرہ، یہ سب باتیں ناجائز اور مکروہ ہیں۔ آنحضرت ۖ نے میت کے پسماندگان کی پریشانی کو ہلکا کیا ہم اس کے بر خلاف اہلِ خانہ اور ورثاء کے لیے پریشانی بڑھاتے ہیں اور یتیم بچوں کا خیال بھی نہیں کرتے کہ ان کے سر پرست کا انتقال ہوا وہ فکر معاش میں مبتلا ہوئے پریشان ہیں مگر ہم ان پر ضیافت اور دعوتوں کا بار ڈالتے ہیں پریشانی پر پریشانی بڑھاتے ہیں، اس سلسلہ میں حضرات ِ فقہاء کرام کے ارشادات ملاحظہ فرمائیے :وَیُکْرَہُ اتِّخَاذُ الضِّیَافَةِ مِنَ الطَّعَامِ مِنْ اَھْلِ الْمَیِّتِ لِاَنَّہُ شُرِعَ فِی السُّرُوْرِ لَا فِی الشُّرُوْرِ وَھِیَ بِدْعَة مُسْتَقْبَحَة رَوَی الْاِمَامُ اَحْمَدُ وَ ابْنُ مَاجَہ بِاِسْنَادٍ صَحِیْحٍٍ عَنْ جَرِیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ کُنَّا نَعُدُّ الْاِجْتَمَاعَ اِلٰی اَہْلِ الْمَیِّتِ وَصَنِیْعِھِمُ الطَّعَامَ مِنَ النِّیَاحَةِ وَ یَسْتَحَبُّ لِجِیْرَانِ اَھْلِ الْمَیِّتِ وَالْاَقْرِبَائِ الَابَاعِدِ تَھِیَّةُ طَعَامٍ لَھُمْ لِیَشْبَعَھُمْ یَوْمَھُمْ وَلَیْلَتَھُمْ لِقَوْلِہِ ۖ اِصْنَعُوْا لِاٰلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا فَقَدْ ------------------------------١ تر مذی و ابوداؤد