ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2017 |
اكستان |
|
جَائَ ھُمْ مَا یَشْغَلُھُمْ ١ وَلِاَنَّہُ بِرٍّ وَ مَعْرُوْف وَیُلِحُّ عَلَیْھِمْ فِی الْاَکْلِ لِاَنَّ الْحُزْنَ یَمْنَعَھُمْ مِنْ ذَالِکَ فَیَضْعَفُوْنَ۔ ( فتح القدیر ص ج ١ ص ٤٧٣) ''اہلِ میت کی طرف سے کھانے کی دعوت کرنا مکروہ ہے کیونکہ وہ خوشی کے موقع پر ہوتی ہے نہ رنج اور صدمہ کے موقع پر، یہ نہایت قبیح بدعت ہے امام احمد اور ابن ماجہ نے سند ِصحیح کے ساتھ جریربن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ اہلِ میت کے یہاں جمع ہونے اور اہلِ میت کی طرف سے کھانا تیار کرانے کو ہم نوحہ کی ایک رسم شمار کیا کرتے تھے، (البتہ) اہلِ میت کے پڑوسیوں اور دُور کے رشتہ داروں کے لیے یہ مستحب ہے کہ اہلِ میت کے لیے اتنے کھانے کا انتظام کر دیں جس سے وہ اُس دن میں اور شب میں شکم سیر ہو سکیں کیونکہ آنحضرت ۖ نے فرمایا جعفر کے اہل و عیال کے لیے کھانا بنادو کیونکہ ان کو ایسا حادثہ پیش آگیا ہے جو اُن کو مصروف کیے ہوئے ہے۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن اور حاکم نے اس کو حدیث صحیح قرار دیا ہے ۔اور یہ بھی واقعہ ہے کہ ان غم زدہ لوگوں کے لیے کھانے کا انتظام کرنا نیک کام اور حسن سلوک ہے۔ ''کھانے کے لیے اصرار کرنا : اصرار کرکے اہلِ میت کو کھانا کھلائیں ،صدمہ ان کو کھانے سے روکے گا (وہ کھانے کے لیے تیار نہ ہوں گے) مگر نہ کھانا ان کو کمزور کر دے گا(جس سے صدمہ اور بڑھے گا) لہٰذا اصرار کر کے ان کو کھلادینا چاہیے۔ (فتح القدیر ج ١ ص ٤٧٣)وَیُکْرَہُ ِاتِّخَاذُ الطَّعَامِ فِی الْیَوْمِ الاوَّلِ وَ الثَّالِثِ وَ یَوْمِ الْاُسْبُوْعِ وَ الْاَعْیَاِدِ وَ نَقْلِ الطَّعَامِ اِلَی الْقَبْرِ فِی الْمَوَاسِمِ وَ اِتِّخَاذُ الدَّعْوَةِ بِقِرَائَ ةِ الْقُرْآنِ وَ جَمْعُ الصُّلَحَائِ وَ الْقُرَّائِ لِلْخَتْمِ اَوِ الْقِرَائَ ةِ سُوْرَةَ الْاَنْعَامِ وَ الْاِخْلَاصِ فَالْحَاصِلُ اَنَّ اِتِّخَاذَ الطَّعَامِ عِنْدَ قِرَائَ ةِ الْقُرْآنِ لِاَجْلِ الاَْکْلِ یُکْرَہُ۔ ( بزازیہ علی الفتا وی الہندیہ ) ------------------------------١ حَسَّنَہُ التِّرْمِذِیُّ وَ صَحَّحَہُ الْحَاکِمُ (باقی صفحہ ٤٩ )