ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2017 |
اكستان |
|
(٢٠) اگر ان کو چھینک آئے تو '' یَرْحَمُکَ اللّٰہ ''کہو اور اگر وہ تم سے کسی بات میں مشورہ کریں تو نیک صلاح دیا کرو۔ المختصر جو اہتمام اپنے نفس کو نفع پہنچانے اور ضرر سے بچانے کا کرسکتے ہووہی عام مسلمانوں کے لیے بھی ملحوظ رکھو۔(ب) متعلقین اور اَقارب کے حقوق : خاص متعلقین سے برتائو میں نسبی (جو نکاح سے ہوں)اور صہری رشتہ دار یعنی بیوی بچے ماںباپ اور ہمسایہ ،غلام، نوکر چاکر سب متعلقین میں داخل ہیں ،رسولِ مقبول ۖ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن سب سے پہلے جن کا مقدمہ پیش ہو گا وہ ہمسایہ ہوں گے لہٰذا پڑوس کے حقوق کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے کیونکہ ہمسایہ کے پلے ہوئے کتے کے اگر ڈھیلا بھی مار و گے تو ہمسایہ کے ایذا رساں سمجھے جائو گے ، ایک عورت نہایت پارسا تھی مگر اُس کے پڑوسی اُس سے نالاں رہتے تھے رسول اللہ ۖ نے اس کو دوزخی فرمایا ہے۔(ج) پڑوس کے حقوق : ایک مرتبہ حضور مقبول ۖ نے صحابہ سے فرمایا کہ جانتے بھی ہو ہمسایہ کے کتنے حقوق ہیں ؟ اگر ہمسایہ مدد چاہے تو مدد کرو اور قرض مانگے تو قرض دو، اگر تنگ دست ہو جائے تو اچھا سلوک کرو، اگر بیمار پڑ جائے تو عیادت کرو اور انتقال کر جائے تو جنازہ کے ساتھ جائو، اگر اس کو کوئی خوشی حاصل ہو تو مبارکباد دو اور رنج پہنچے تو تسلی دو، اُس کی اجازت کے بغیر اپنا مکان اتنا اُونچا نہ بنائو کہ اس کو خاطر خواہ ہوانہ پہنچ سکے، اگر کوئی پھل خرید لائو تو اُس میں سے بقدرِ مناسب اس کو بھی دو اور اگر نہ دے سکو تو چپکے سے گھر میں لے آئو تاکہ دیکھ کر اُس کو حرص نہ ہواِس کے بعد مناسب ہے کہ تمہارا بچہ بھی پھل لیکر باہر نہ نکلے کیونکہ ہمسایہ کے بچہ کو حرص ہو گی تو اس کو رنج ہوگا، اس طرح اگر ہانڈی چڑھے تو ایک چمچہ پڑوسی کو بھی پہنچائو، جانتے ہو کہ پڑوسی کا حق کس قدر ہے پس یہ سمجھ لو کہ پڑوسی کے حقوق وہی پورے کرسکتا ہے جس پر اللہ تعالی کافضل ہو۔