ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2017 |
اكستان |
|
درجے ہیں ،دیکھو مقتدائے اُمت جناب رسول اللہ ۖ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے ساتھ کیسی خوش طبعی اور دلجوئی اورمحبت و نرمی کا برتائو فرماتے تھے، حدیثوں میں حسن معاشرت کی بڑی تاکید آئی ہے۔دینی دوست بنانے کی فضیلت اور حُب فی اللہ کے درجے : ان ہی اصولوں میں سے ایک اصل یہ بھی ہے کہ اپنے لیے کچھ دینی دوست تجویز کر لو جن سے محض اللہ ہی کے واسطے محبت ہو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آواز دے گا ''کہاں ہیں وہ جو خاص میرے واسطے باہم محبت رکھتے تھے، آج جبکہ میرے سایہ کے سوا کہیں سایہ نہیں ہے میں ان کو اپنے سایہ میں لے لوں گا۔'' حدیث میں آیا ہے کہ عرش کے گرد نور کے ممبر ہیں جن پر ایک جماعت بیٹھے گی جن کے لباس اور چہرے سرتاپانور ہوں گے اور وہ لوگ نہ نبی ہیں نہ شہید مگر انبیا و شہدا اُن کی حالت پر رشک ١ کریں گے، صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ۖ وہ کون لوگ ہوں گے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کے مخلص بندے جو باہم اللہ کے واسطے محبت کرتے اور اللہ کے واسطے ایک دوسرے کے پاس بیٹھتے اُٹھتے اور آتے جاتے ہیں۔ یادرکھو کہ ایمان کے بعد اللہ کے واسطے محبت کا مرتبہ ہے اس میں دو درجے ہیں :(١) حُب فی اللہ : پہلا درجہ یہ ہے کہ تم کسی شخص سے اِس بنا پر محبت کرتے ہو کہ دنیا میں تم کو اس کے ذریعہ سے ایسی چیز حاصل ہے جو آخرت میں مفید ہے مثلاً شاگرد کو اپنے اُستاد کے ساتھ علم دین حاصل کرنے کی وجہ سے محبت ہے اور مرید کو اپنے مرشد سے راہِ طریقت معلوم کرنے کے سبب محبت ہے بلکہ اُستاد کو اپنے شاگرد کے ساتھ جو محبت ہوتی ہے وہ بھی اِس بنا پر ہوتی ہے کہ دین کا سلسلہ اِس کی وجہ سے مدتوں تک میری طرف منسوب ہو کر جاری رہے گا اور مجھ کو آخرت میں صدقہ جاریہ کا اَجر ملے گا اس طرح ------------------------------١ رشک کبھی بڑے کو چھوٹے پر بھی ہوتا ہے جیسے حاکم اعلیٰ کے معائنہ تحصیل کے وقت چپڑاسی کی بے فکری اور اپنی ذمہ داری دیکھ کر تحصیلدار کو اُس پر رشک ہوتا ہے اسی طرح حضراتِ انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی اُمت کی فکر میںمشغول ہوں گے اور یہ لوگ ان سے چھوٹے درجہ میں ہونے کی وجہ سے اِن فکروں سے آزاد ہوں گے۔