قرب الہی کی منزلیں |
ہم نوٹ : |
|
ہے؟ علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت کے امام بیہقی تفسیر مظہری میں جو عربی زبان میں ہے، لکھتے ہیں کہ اس آیت سے اللہ اللہ کرنا ثابت ہوتا ہے۔ بتائیے! ہمارے رب کا کیا نام ہے؟ اللہ ہے یا نہیں؟ تو وَ اذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ سے اللہ کا نام ثابت ہو گیا، ذکرِ اسمِ ذات کا ثبوت اس سے مل گیا۔ تبتل کی حقیقت آگے ہے تبتل کا مسئلہ، تصوف کاایک مسئلہ ہے وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًا کہ سب سے کٹ کر اﷲ سے جڑنا۔ اس آیت کے ذیل میں حکیم الامت تفسیر بیان القرآن میں لکھتے ہیں کہ اس سے مراد جنگلوں میں جاکر جوگی اور سادھو بننا نہیں ہے۔ بال بچوں کی پرورش میں، تجارت گاہوں میں اور اپنے احباب میں آپ تبتل کامقام اس طرح حاصل کرسکتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے تعلق کو، علاقۂ خداوندی کو، تعلق مع اﷲ کو، اﷲ کی محبت اور تعلق کو تمام تعلقات ماسوا اﷲ پرتمام مخلوق کے تعلق پر غالب کردیں۔ کھانے پینے کی محبت، مرغی اُڑانے اور ٹھنڈے پانی کی محبت پر اﷲ تعالیٰ کی محبت کو غالب کرلو یعنی اﷲ کی محبت اکیاون فیصد کر لو بس تبتل کا مقام مل گیا، اللہ کے تعلق کو اپنے اوپر غالب کرلو تاکہ زمانہ تم کو مغلوب نہ کرسکے۔ علاقۂ خداوندی کو تعلقاتِ مخلوق پر غالب کرنے کانام تبتل ہے جو آپ مخلوق میں حاصل کرسکتے ہیں، اس کے لیے جنگل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسلام میں سادھو بننا نہیں سکھایا۔ لہٰذا اس آیت سے دو مسئلے ثابت ہوگئے: نمبر ایک ذکرِ اسمِ ذات،اور نمبر دو وَ تَبَتَّلۡ اِلَیۡہِ تَبۡتِیۡلًا کہ سب سے کٹ کر آپ اﷲ سے جڑ جائیے،یعنی قلب کے اعتبار سے۔ یہ حکم جسم کے اعتبار سے نہیں ہے، بس قلب کو ہر وقت اﷲ تعالیٰ سے چپکائے رکھو۔ بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ بیٹی کی شادی ہوجائے، مکان کی چھت ڈل جائے، پھر اطمینان سے اﷲ کا نام لیں گے، ابھی تو ذہنی سکون ہی نہیں ہے، بے حد مشغولی ہے، اس مشغولی میں اللہ کا نام لینے میں کیا مزہ آئے گا؟ ذرا دو چار اہم اہم کام کر لوں پھر خدا کا نام لوں گا، اور دوسری بات یہ سوچتے ہیں کہ ابھی فلاں گناہ کی عادت ہے، ابھی اس گناہ کو چھوڑنے کی ہمت نہیں ہے، جب یہ گناہ چھوٹ جائیں گے پھر صوفی بنیں گے۔