قرب الہی کی منزلیں |
ہم نوٹ : |
|
اﷲ تعالیٰ ایسی عبادت کو ہر گزقبول نہیں فرماتے جس سے بندہ غیر متوازن ہوجائے، جیسے کہ ابّا اپنی اولاد سے بوجہ شفقتِ پدری کے اتنی خدمت لیتا ہے کہ بیٹا غیر متوازن نہ ہوجائے۔ تو جب باپ اپنے بیٹے کو پاگل کرنا نہیں پسند کرتا، تو اﷲ تعالیٰ کیسے پسند کرے گا کہ میرے بندے اتنی زیادہ عبادت کریں کہ دماغی طور پر بیماریا پاگل ہوجائیں؟ اس لیے میں وظیفہ کم بتاتا ہوں، البتہ ایک وظیفہ بہت بتاتا ہوں کہ کام ہی نہ کرو، کام نہ کرکے ولی اﷲ ہوجاؤ، بغیر کام کیے ہی مزدوری لے لو۔ ہے کوئی فیکٹری مالک جو یہ کہے کہ میرے ہاں مہینہ بھر آرام سے رہو، کچھ کام نہ کرو اور تنخواہ پوری لو؟ لہٰذا صرف فرض، واجب اور سنت مؤکدہ ادا کرلو، بڑے بڑے وظیفے نہ پڑھو، بس ایک کام کرلو کہ اﷲ کو ناراض نہ کرو۔اﷲ کے دیے ہوئے رزق کو کھا کر اس سے توانائی محسوس کرکے تم جو بے وفائی کرتے ہوتو اس سے معلوم ہوا کہ تمہاری طبیعت خبیث اور غیرشریفانہ ہے۔ تم فطرت کے اعتبار سے کمینے ہوچکے ہو۔ تمہیں شرم نہیں آتی کہ جب تم نافرمانی کرتے ہو تو اﷲ تعالیٰ اس وقت تمہیں دیکھ رہے ہوتے ہیں اور تم گناہ کے حرام مزے لیتے وقت بے حیائی سے اُنہیں بھولے رہتے ہو۔ حیا کی تعریف محدثِ عظیم ملّاعلی قاری رحمۃ اﷲ علیہ شرح مشکوٰۃ شریف میں لکھتے ہیں کہ اصل میں بے حیا وہ ہے جسے اﷲ تعالیٰ اپنی نافرمانی میں دیکھے: فَاِنَّ حَقِیْقَۃَ الْحَیَاءِ اَنَّ مَوْلَا کَ لَا یَرَاکَ حَیْثُ نَھَاکَ 2؎حقیقتِ حیا یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہم کو اپنی نافرمانی میں مبتلا نہ دیکھے۔ اﷲ تعالیٰ ہروقت دیکھتا ہے، ہر جگہ دیکھتا ہے، تو فطرتِ معصیت جو ہے یہ فطرتِ بے وفائی اور کمینگی ہے،یہ نفسِ امّارہ کا غلبہ ہے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ ایک شخص ہرن کے شکار کے لیے گیا اور دعویٰ کیا تھا کہ آج ہرن مار کر لاؤں گا، میرا نشانہ خطا نہیں ہوتا۔ اس ناز وتکبر کا عذاب یہ ہوا کہ جھاڑی سے جنگلی سور نکلا اور اس کو منہ میں لے کر چبانے لگا، تب وہ سور کے منہ میں کہتا ہے کہ آہ! میرا _____________________________________________ 2؎مرقاۃ المفاتیح:70/1،کتاب الایمان، المکتبۃ الامدادیۃ، ملتان