قرب الہی کی منزلیں |
ہم نوٹ : |
|
لطف جنت کا تڑپنے میں جسے ملتا نہ ہو وہ کسی کا ہو تو ہو لیکن ترا بسمل نہیں اﷲ کا نام اور اﷲکی محبت کا نقطۂ آغاز ہی رشکِ جنت ہے، کیوں کہ جنت مخلوق ہے، اﷲ تعالیٰ خالق ہے، خالق اور مخلوق برابر نہیں ہوسکتے، اسی طرح ساجد اور مسجود برابر نہیں ہوسکتے چاہے کتنا ہی بڑا ولی ہو، کتنا ہی بڑا پیغمبر ہو۔ جب سیدالانبیاء صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سجدہ کررہے ہیں، تو ساجد اور مسجود کیسے برابر ہوسکتے ہیں؟ مقصدِ حیات اپنے اللہ کو ہر وقت خوش رکھنا مقصدِ حیات ہے، اگر کسی ظالم کو اس کی توفیق نہ ہوکہ ہم اپنے اللہ کو ہر وقت خوش رکھیں، ان کو نا خوش کر کے حرام خوشیاں در آمد نہ کریں، تویہ ظالم بہت ہی محروم القسمت ہے، طبیعت کا کمینہ پن اس کے اندر رسوخ کر چکا ہے، گناہ کرتے کرتے اس کا مزاج فاسد ہو چکا ہے۔ جیسے ایک بھنگی بھنگی پاڑے میں رہتا تھا، پاخانہ سونگھتے سونگھتے اس کا دماغ بد بو کا عادی ہوچکا تھا، ایک دن عطر کی دوکان پر گیا، خوشبو کبھی سونگھی نہیں تھی، عطر کی دوکان پر خوشبو سونگھتے ہی بے ہوش ہوگیا۔حکیم صاحب نے عرقِ گلاب چھڑکا، موتی کا خمیرہ چٹایا، لیکن اس کی بے ہوشی بڑھتی گئی، اس کے بھائی کو خبر ہوئی کہ میرا بھائی رات دن پاخانے کا کنستر اٹھانے والا، بھنگی پاڑے کے بدبو دار ماحول میں رہنے والا بے ہوش ہوگیا ہے، تو بھائی کی محبت میں دوڑا ہوا آیا، عطر کی خوشبو سونگھتے ہی سمجھ گیا کہ اسی کی وجہ سے یہ بے ہوش ہوا ہے۔ اس نے حکیموں کے آگے ہاتھ جوڑے کہ میرے بھائی کو عرقِ گلاب اور خمیرے سے فائدہ نہیں ہوگا، اس کا علاج میں ابھی کرتا ہوں۔ اس کو کہیں سے کتے کا پاخانہ مل گیا جس کو فارسی میں ’’سرگینِ سگ ‘‘ کہتے ہیں، سرگین پاخانہ کو کہتے ہیں اور سگ معنیٰ کتا۔ تو اس نے کتے کا پاخانہ لیا، روئی کی بتی بناکر اس پر کتے کا پاخانہ لپیٹا اور اپنے بھائی کی ناک کے سوراخوں میں مغزِ دماغ تک ٹھونس دیا، پاخانہ سونگھتے ہی اسے ہوش آگیا اور اٹھ کر بیٹھ گیا،کیوں کہ اسے پاخانہ سونگھنے کی عادت تھی۔خوب سمجھ لیجیے! عادت بہت دن کے بعد جاتی ہے۔ جب تک گناہوں کی عادت چھوڑنے کے لیے جان کی بازی نہیں لگائے گا گناہوں سے نجات نہیں مل سکتی۔ جتنا