قرب الہی کی منزلیں |
ہم نوٹ : |
|
اللہ کے ساتھ ہیں۔ حاجی امداداللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حکیم الامت سے فرمایا: مولانا اشرف علی صاحب سن لو! جب امداد اﷲ کسی سے بات بھی کر رہا ہو تو بھی آپ یہ سمجھیے کے میرے قلب سے آپ کے قلب میں نور داخل ہورہا ہے کیوں کہ امداد اللہ اگر چہ مخلوق کے ساتھ بات کرتا ہے مگر میرا دل اپنے خالق کے ساتھ وابستہ رہتا ہے،میرا دل خدا سے دور نہیں ہوتا۔ اس لیے عرض کرتا ہوں کہ اگر آپ حضرات اللہ کے ولی بننا چاہتے ہیں تو بغیر گناہ چھوڑے ولایت نہیں مل سکتی، ولایت اور گناہ جمع نہیں ہو سکتے، لیکن معصیت سے اجتناب کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے گناہ ہی نہ ہو، کبھی کوئی گناہ ہو جائے تو اﷲ سے توبہ کر کے رو لو، لیکن یہ نہیں کہ گناہ کو غذا ہی بنالو، اپنا اوڑھنا بچھونا بنالو، خاص طور پر بد نظری بہت خطر ناک مرض ہے،یہ اتنا شدید مرض ہے کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ اس سے دل کا کتنا ستیا ناس ہو تا ہے۔ جب سڑک پر چلو ارادہ کر لو کہ ہمیں کسی حسین پر نظر نہیں ڈالنی ہے۔ آپ جب تک نظر بچانے کا ارادہ نہیں کریں گے نظر نہیں بچ سکتی، بعض لوگ عدمِ قصدِ نظر کرتے ہیں قصدِ عدمِ نظر نہیں کرتے۔ عدمِ قصدِ نظر کے معنیٰ ہیں کہ دیکھنے کا ارادہ ان کے دل میں نہیں ہے مگر قصدِ عدمِ نظر یہ ہے کہ ارادہ کرو کہ کسی کو نہیں دیکھنا ہے۔جب موٹر پر بیٹھیے، سڑکوں پر جائیے ارادہ کر لیجیے کہ اے اللہ! کسی حسین کو نہیں دیکھنا ہے، شیطان اور نفس جیسے دشمنوں کی وجہ سے میں آپ کا غضب نہیں خرید سکتا۔ اصغر گونڈوی رحمۃ اللہ علیہ نے کتنا عمدہ شعر فرمایا کہ خدا کب ملتا ہے؟ جب دنیا کے چاندوں کو چھوڑو گے تو اللہ کا چاند مل جائے گا۔ کتنا پیارا شعر ہے ؎میں نے لیا ہے داغِ دل کھو کے بہارِ زندگی ایک گلِ تر کے واسطے میں نے چمن لُٹا دیا اللہ کی محبت کا درد کب ملتا ہے؟ اللہ کی محبت کا درد کب ملتا ہے؟ جب دنیا کی فانی بہاروں کو چھوڑ دو، خاص کر جو ناجائز بہار ہے۔ گلِ تر سے مراد اﷲ کی ذات ہے، آسمان کی طرف نظر ہے ؎توڑ ڈالے مہ و خورشید ہزاروں ہم نے تب کہیں جاکے دِکھایا رُخِ زیبا تو نے