قرب الہی کی منزلیں |
ہم نوٹ : |
|
یہ کون آیا کہ دھیمی پڑ گئی لو شمعِ محفل کی پتنگوں کے عوض اُڑنے لگیں چنگاریاں دل کی جب خدا دل میں آتا ہے یعنی اپنی تجلیاتِ خاصہ سے متجلّی ہوتا ہے تو دنیا نگاہوں سے گر جاتی ہے، چاند اور سورج نگاہوں سے گر جاتے ہیں، بادشاہوں کے تخت و تاج نگاہوں سے گرجاتے ہیں، مال داروں کی مال و دولت نگاہوں سے گرجاتی ہے۔ اسی مضمون کو خواجہ صاحب نے اِس شعر میں بیان کیا ہے ؎یہ کون آیا کہ دھیمی پڑ گئی لو شمعِ محفل کی پتنگوں کے عوض اُڑنے لگیں چنگاریاں دل کی میرے مرشد اوّل حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صا حب رحمۃ اللہ علیہ اس شعر کو پڑھ کر بہت روتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ نسبت عطا ہونے کی علامت ہے کہ دنیا اس کی نگاہوں سے گر جاتی ہے،اور شاہ عبدالغنی صاحب ایک دوسرا شعر بھی فرماتے تھے کہ جب خدا اپنی نسبت عطا کر تا ہے تو کیا ہو تا ہے ؎بس ایک بجلی سی پہلے کوندی پھر اس کے آگے خبر نہیں ہے مگر جو پہلو کو دیکھتا ہوں تو دل نہیں ہے جگر نہیں ہے جب اللہ دل میں آتا ہے تو اپنا دل بھی نہیں معلوم ہوتا کہ کہاں ہے ؎نہ دل ماند نہ من مانم نہ عالم اگر فردا بدیں خوبی در آئی جب سارا عالم نگاہوں سے گر جائے تو اپنا کیا ہوش رہے گا۔ خواجہ صاحب نے کیا پیاراشعر فرمایا ؎حال میں اپنے مست ہوں غیر کا ہوش ہی نہیں رہتا ہوں میں جہاں میں یوں جیسے یہاں کوئی نہیں خدا کے عاشقوں کا عالم خدا کا ہر عاشق اپنی دنیا الگ بناتا ہے، اس کے آسمان و زمین الگ ہوتے ہیں، اس کے