قرب الہی کی منزلیں |
ہم نوٹ : |
|
چاند و سورج الگ ہوتے ہیں۔ میں نے الٰہ آباد میں ایک بہت بڑے بزرگ مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ حضرت اللہ کا ہر عاشق ایک الگ دنیا بناتا ہے، اس کا عالم الگ ہوتا ہے اور پھر اپنا ایک مصرع عرض کیا جو اسی وقت موزوں ہوا تھا کہ ؎اپنا عالم الگ بناتا ہے حضرت نے فرمایا کہ اس پر میر ا ایک مصرع لگادو ؎عشق میں جان جو گنواتا ہے اپنا عالم الگ بناتا ہے زندگی ایک ہی دفعہ ملی ہے لیکن اس ظالم سے کیا جان دینے کی توقع ہو جسے مرنے والوں سے فرصت نہیں؟ جو پیشاب اور پاخانے کے مقامات میں گھسنے کے لیے پاگلوں کی طرح بے چین ہے۔ واللہ! میں روتے روتے مربھی جاؤں تب بھی میری آہ کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ بہت ہی بدبختی کی بات ہے، ایک ہی دفعہ تو زندگی ملی ہے، کب تک ان مُردوں پر مرتے رہو گے، اللہ پر کب مرو گے؟ آپ حضرات سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ زندگی ان حسینوں پر ختم ہوگئی، تو کیا آپ امید رکھتے ہیں کہ مرنے کے بعد اللہ آپ کو دوبارہ زندگی دے کر دنیا میں بھیجے گا کہ اچھا اس دفعہ تو تم بتوں پر مرے، جاؤ! اب مجھ پر مر کے آنا۔کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ یہ حسین آپ کے کچھ کام نہیں آئیں گے۔ اگر خدا فالج گرا دے، بلڈ کینسر پیدا کر دے، گردے بے کار کردے تو یہ حسین جن کو دیکھ دیکھ کر لوگ پاگل ہورہے ہیں کیا ہاسپٹل میں جاکر خیریت پوچھیں گے؟ اﷲ تعالیٰ سے کیسی محبت کریں؟ کاش! ہمیں اپنے اللہ سے ایسا عشق ہو جائے جس طرح چھوٹا بچّہ اپنی ماں کے بغیر بے چین ہوجاتا ہے۔ حج کے زمانے میں ایک بچّہ بیت اللہ میں اپنی ماں سے بچھڑ گیا اور چلاّ چلاّ کر رونے لگا، ساری دنیا کی ماؤں نے اس کو گود میں لیا، ان میں گوری اور سرخ سفید مائیں بھی تھیں جو صاف ستھرے قیمتی کپڑے پہنے ہوئے تھیں، لیکن بچّہ کسی سے چپ نہیں ہوا، چلّاتا رہا،