قرب الہی کی منزلیں |
ہم نوٹ : |
|
ایک دن ان کا ایک مرید کسی کام سے ان کے گھر گیا، ان کی بیوی کی کڑوی کسیلی باتیں سن کر حضرت مظہر جانِ جاناں کے پاس گیا اور رونے لگا کہ آپ نے ایسی کڑوی مزاج والی عورت سے کیوں شادی کی؟ حضرت مظہر جانِ جاناں رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ اس کڑوی مزاج والی بیوی کو برداشت کرنے کے صدقے میں اللہ نے سارے عالَم میں میرا ڈنکا پٹوا دیا، آج مجھے جو عزت ملی ہے سب اسی کی برکت سے ہے۔ ایک شخص ہزار میل کا سفر طے کر کے حضرت شاہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر پہنچا، تو معلوم ہوا کہ حضرت گھر میں نہیں ہیں۔اس نے ان کی بیوی سے پوچھا کہ حضرت کہاں ہیں؟ بیوی نے جواب دیا کہ حضرت؟ کون سے حضرت؟ ارے وہ تو بڑے حضرت ہیں، اس کے بعد مزید گستاخی کی کہ تو انہیں کیا جانے؟ رات دن تو میں ساتھ رہتی ہوں۔ بیوی کی باتیں سن کر وہ شخص بہت مایوس ہوا کہ میں تو ان کی بڑی شہرت سن کر آیا تھا، لیکن محلہ والوں نے اسے تسلی دی کہ ان کی بیوی بڑی بد مزاج ہے، ہر وقت کڑوی کسیلی باتیں کرتی ہے، اس کے چکر میں نہ آنا، حضرت تو بہت بڑے ولی اللہ ہیں۔ جاؤ! اس وقت جنگل میں ملیں گے۔ وہ شخص جنگل کی طرف گیا تو دیکھا کہ شیخ ابوا لحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ شیر پر بیٹھے آرہے ہیں، شیر کی پیٹھ پر لکڑی کا گٹھا لدا ہوا ہے اور ان کے ہاتھ میں سانپ کا کوڑا ہے۔ اگر یہ واقعہ کسی ڈائجسٹ میں ہوتا تو میں اسے ہرگز پیش نہ کرتا، لیکن جلال الدین رومی جیسے محبوب الاولیا اور محبوب العلماء و المشایخ نے مثنوی میں اس قصے کو لکھا ہے کہ وہ شیر پر بیٹھے چلے آرہے ہیں، اس شخص کو دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ میری بیوی سے مل کر آرہا ہے۔ انہوں نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ غم مت کرو، اللہ نے بیوی کی کڑوی کسیلی باتیں برداشت کرنے کی برکت سے مجھے یہ کرامت دی ہے کہ میں شیر کی سواری کررہا ہوں ؎گر نہ صبرم می کشیدے بارِ زن کے کشیدے شیرِ نر بیگارِ من اگر میں اپنی بیوی کی تکلیفوں کو برداشت نہ کرتا تو یہ شیر نر میری بیگاری نہ اٹھاتا۔ یہ شیر میرا مزدور جو بنا ہوا ہے، مجھے یہ کرامت اللہ نے بیوی کی باتوں پر صبر کرنے کی برکت سے دی ہے۔