انوار حرم |
ہم نوٹ : |
|
نہیں کریں گے، خیانتِ عینیہ بھی نہیں کریں گے۔ اسمائے حسنیٰ کی تقدیم و تاخیر کے اسرار آگے فرمایا وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡغَفُوۡرُ علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ قرآنِ پاک میں جہاں بھی اللہ تعالیٰ کے کوئی دو نام آئے ہیں، ان کی تقدیم و تاخیر میں بہت بڑے راز ہوتے ہیں۔ جیسے اَلتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ فرمایا۔علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک فرقۂ معتزلہ ہے جو کہتا ہے کہ توبہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے ذمہ توبہ قبول کرنا قانوناً واجب ہے۔گویا نعوذباللہ! اللہ تعالیٰ کو معاف کرنا پڑے گا۔ پس تَوَّاب کے بعد رحیم نازل فرماکر اللہ تعالیٰ نے فرقۂ معتزلہ کا رد فرمایا ہے کہ میں تمہاری توبہ جو قبول کرتا ہوں تو شانِ رحمت کی وجہ سے کرتا ہوں، ضابطے کی وجہ سے نہیں کرتا، ہمارے ذمہ تمہارا کوئی قرضہ نہیں ہے کہ تمہاری توبہ مجھے قبول کرنی ہی پڑے گی لیکن چوں کہ میں تَوَّاب کے ساتھ رَحِیْم ہوں اس لیے تمہاری توبہ کی قبولیت میری شانِ رحمت کی وجہ سے ہوتی ہے۔ میں ضابطے سے تمہیں معاف نہیں کرتا، حق رابطے سے معاف کرتا ہوں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے تَوَّاب کے بعد رَحِیْم نازل فرمایا۔ اور وَ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الۡوَدُوۡدُ 32؎ کا ترجمہ میرے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے پوربی زبان میں فرمایا تھا کہ جانتے ہو ہم تم کو کیوں بخش دیتے ہیں؟ مارے میا کے یعنی مامتا اور محبت کی وجہ سے میں تم کو معاف کردیتا ہوں، میری مغفرت کا سبب میری محبت ہے۔ یہ ربط ہے غفور اور ودود کا۔ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡغَفُوۡرُ اور یہاں عزیز کو کیوں مقدم فرمایا؟ عزیز کے معنیٰ ہیں اَلْقَادِرُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ وَلَا یُعْجِزُہٗ شَیْءٌ فِی اسْتِعْمَالِ قُدْرَتِہٖ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا کہ میں عزیز ہوں یعنی قادر ہوں ہر شئی پر اور اتنا زبردست قادر ہوں کہ سارا عالم مل کر بھی میرے استعمالِ قدرت میں دخل انداز نہیں ہوسکتا۔ دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا پہلوان بھی اپنی طاقت کے استعمال میں قادرِ مطلق نہیں۔ اگر محمد علی کلے کسی کو مارنے کے لیے گھونسہ _____________________________________________ 32؎البروج:14