انوار حرم |
ہم نوٹ : |
|
کرتا ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ کی محبت کا سوال کرنا بھی سنت پیغمبر ہے اور بخاری شریف کی اس حدیث سے یہ سنت ثابت ہے، لہٰذا اس سنت کو بھی ادا کرنا چاہیے اور آگے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ اور اے خدا! جو آپ سے محبت کرتے ہیں میں ان کی محبت کا بھی سوال کرتا ہوں۔ تو اللہ والوں کی محبت مانگنا بھی سنت ہے، وَالْعَمَلَ الَّذِیْ یُبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ 13؎ اور جس عمل سے آپ کی محبت بڑھتی ہے ان اعمال کی توفیق بھی مانگتا ہوں۔ معلوم ہوا کہ ایسے اعمال کی توفیق مانگنا بھی سنت ہے۔ محبتِ الٰہیہ کی مقدار لیکن محبت کی مقدار کیا ہونی چاہیے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مقدار بھی مانگی ہے۔ جس طرح جمبو کا پیٹرول اور ایئربس کا پیٹرول الگ ہوتا ہے، اسی طرح جس کو اللہ تعالیٰ بہت بڑا ولی اللہ بنانا چاہتا ہے اس کو کیفیت بھی زیادہ دیتا ہے کیوں کہ پرواز کی طاقت کمیت سے نہیں ہوتی کیفیت سے آتی ہے۔ دیکھیے! ریل کی کمیت ہوائی جہاز کی کمیت سے زیادہ ہوتی ہے۔ ریل کراچی سے جدہ آئے تو مہینے لگ جائیں گے اور جمبو ساڑھے تین گھنٹے میں پہنچ جاتا ہے۔ تو اللہ والوں کی عبادت کی مقدار سے اپنی مقدار کا توازن مت کرو کیوں کہ جس کیفیت سے وہ عبادت کررہے ہیں وہ کیفیت تم کو حاصل نہیں۔ اس لیے شیخ العرب والعجم حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عارف کی دو رکعات غیرعارف کی ایک لاکھ رکعات سے افضل ہیں کیوں کہ جس دردِ دل سے وہ اللہ کا نام لیتا ہے غیرعارف کو وہ دردِ دل حاصل نہیں، وہ محبت حاصل نہیں۔ اس لیے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بخاری شریف کی اس حدیث کی دوسری سطر میں محبت کی مقدار مانگی ہے کہ محبت کتنی ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت اپنی جان سے زیادہ ہونی چاہیے اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَفْسِیْ 14؎اے خدا! اپنی محبت مجھ کو اتنی دے دے کہ میری جان سے زیادہ آپ مجھے پیارے معلوم _____________________________________________ 13؎جامع الترمذی: 187/2، باب من ابواب جامع الدعوات،ایج ایم سعید 14؎جامع الترمذی: 187/2، باب من ابواب جامع الدعوات،ایج ایم سعید