انوار حرم |
ہم نوٹ : |
|
نے تو فرشی کو عرشی بنادیا۔ حضرت نےفرمایا کہ مجھے اس کے کلام میں اخلاص کی خوشبو نہیں ملی،ایسا محسوس ہوا کہ یہ پکا دنیادارہے اور مال اُڑانے کے لیے آیا ہے۔ تو حضرت نے میزبان سے کہا کہ آج جَو کی روٹی اور ارہر کی اُبلی ہوئی دال پکانا اور چٹنی بھی نہ رکھنا۔ امتحان میں ممتحن کو بھی تکلیف اُٹھانی پڑتی ہے۔ اس نے جب ارہر کی دال اور جو کی روٹی دیکھی تو حضرت اس کا چہرہ دیکھ رہے تھے کہ دیکھیں اس کے چہرے پر کیا کیا رنگ تبدیل ہوتے ہیں، مایوسی اور صدمے سے نڈھال معلوم ہونے لگا۔ پھر میزبان سے تنہائی میں فرمایا کہ رات کے کھانے پر بھی یہی جو کی روٹی اور دال ہوگی، کچھ اور نہیں ہوگا، نہ بریانی نہ پلاؤ، میرا حکم چلے گا۔ اب دوسرے دن دوپہر کو بھی پھر وہی روٹی اور وہی دال تھی اور رات کو سوچا کہ شاید اب بریانی مل جائے۔لیکن دیکھا تو وہی دال۔ جب دیکھا کہ یہاں تو دال نہیں گلے گی تو ٹھیک بارہ بجے رات کو عرشِ اعظم سے فرش پر اُتر آیا اور بستر لے کے بھاگ گیا۔ اس نے کہا تھا کہ آپ کی تقریر سے تو میری روح عرشِ اعظم پر پہنچ گئی۔ وہ سمجھتا تھا کہ اللہ والے ایسے ہی بے وقوف ہوتے ہیں، انہیں خوب بےوقوف بنالو۔ یہ احمق نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ جس کو اپنے دین کی خدمت کے لیے قبول کرتا ہے اس کو عقل و فراست بھی دیتا ہے۔ ان کو کیا معلوم کہ اللہ والوں کی فراست کیا ہوتی ہے۔ اور حضرت نے ایک اور واقعہ سنایا کہ ایک نیا مرید آیا اور کہا کہ حضرت! مجھے دبانا بہت اچھا آتا ہے۔ کہا کہ اچھا دیکھوں کیسا دباتا ہے۔ دبانے میں واقعی ماہر تھا، ایسا دبایا کہ حضرت کو سلادیا۔ جب حضرت کو خوب گہری نیند آگئی تو سارا پیسہ حضرت کی جیب سے نکال کر ایک دو تین ہوگیا۔ حضرت کی جب آنکھ کھلی تو فرمایا کہ یہ دبوانا تو بڑا مہنگا پڑا اور فرمایا کہ پیر کو مریدوں کے چکر میں جلدی نہیں آنا چاہیے، کافی دن آزمایش کرنی چاہیے۔ محرومی کے دو سبب غرض جو لوگ اللہ والوں کے ساتھ اخلاص سے نہیں رہتے محروم رہتے ہیں۔ اسی طرح جو اللہ والوں سے استغنا برتتے ہیں کہ صاحب! ہمیں کیا ضرورت ہے اللہ والوں کی جوتیاں اُٹھانے کی، ہم خود بخاری پڑھاتے ہیں تو ایسے مولوی صاحب کی اُمت کی نگاہوں میں کوئی عزت نہیں ہوتی، وہ مولوی صاحب نہیں مُولی صاحب، گاجر صاحب ہیں کیوں کہ ان کے