انوار حرم |
ہم نوٹ : |
|
دنیا میں مولویوں کی خوشامد کرلو کیوں کہ یہاں تو ان سے مسئلہ پوچھنے پر ہم مجبور ہیں مگر جنت میں تو شریعت نہیں ہے وہاں تو مولویوں سے جان چھوٹے گی کیوں کہ وہاں تو کوئی مسئلہ پوچھنا نہیں ہے، صرف کھانا پینا اور مزے کرنا ہے۔ جیسے ایک بار قاری طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے فرمایا کہ آؤ! جنتی کام کرلیں۔ میں نے کہا کہ حضرت! دنیا میں جنتی کام کیا ہے؟ فرمایا کہ چلو دسترخوان لگ رہا ہے، کھانا پینا ہی تو ہے جنت کا کام۔ جنت میں نماز روزہ نہیں ہے، شریعت نہیں ہے، وہاں کوئی عبادت نہیں کرنی ہے، وہاں بس عیش ہی عیش ہے، مزہ ہی مزہ ہے،اہل اللہ کی ملاقات،عاشقوں کی زیارت۔اگر آپ کا دل چاہا کہ چلو سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرلیں تو فوراً آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوجائیں گے، پرندہ اُڑ رہا ہے دل چاہے کہ یہ بھنا ہوا مجھے مل جائے اسی وقت بھنا ہوا موجود۔ جو چاہوگے اللہ تعالیٰ دے گا اور ہمیشہ کی غیرمحدود زندگی ملے گی، کبھی موت ہی نہیں آئے گی۔ مؤمن کے خُلُوْدْ فِی الْجَنَّۃِ اور کافر کے خُلُوْدْ فِی النَّارِ کی وجہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ دنیا میں چند روز تم اپنی محدود زندگی کو میری مرضی پر ڈھال لو تو میں تمہیں غیرمحدود زندگی اور غیرمحدود لذّت تمہاری نیت کی بنا پر دوں گا کیوں کہ مؤمن کی نیت یہ ہوتی ہے کہ اگر ہمیشہ زندہ رہوں گا تو اللہ تعالیٰ کی مرضی پر جیوں گا، اپنی مرضی اور اپنی خواہش کو اللہ تعالیٰ کی مرضی پر نثار کردوں گا تو مؤمن کی اس نیت پر خُلُوْدْ فِی الْجَنَّۃِ ہے اور کافر کی نیت کیوں کہ یہ ہے کہ اگر قیامت تک بھی زندہ رہوں گا تو کفر پر ہی رہوں گا، اس لیے کافر کے لیے خُلُوْدْ فِی النَّارِ ہے۔ جنت پر اہل اللہ کی فضیلت کی دلیل تو میں عرض کررہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھی اپنے عاشقین، اللہ والوں اور مولویوں یعنی علمائے ربانیّین کی ملاقات کو ضروری کردیا لیکن فرمایا جنت میں بھی تم ان سے مستغنی نہیں ہوسکتے۔ فرماتے ہیں: