انوار حرم |
ہم نوٹ : |
|
کہ اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَفْسِیْ اے اللہ! اپنی محبت مجھ کو میری جان سے زیادہ دے دے،اور جب یہ محبت ہمیں عطا ہوجائے گی تو ہم اللہ تعالیٰ کو ناخوش کرکے اپنی جان کو خوش نہیں کریں گے اور اس کا انعام یہ ہے جو ابھی بیان ہوا کہ دنیا ہی میں ایسا مزہ پائیں گے کہ دونوں جہاں کی لذت کو بھول جائیں گے۔ مقدارِ محبت کا دوسرا جز اورمحبت کی مقدار کا دوسرا جز جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مانگا وہ کیا ہے؟ وَمِنْ اَہْلِیْ اور اتنی محبت دے دے کہ میرے بیوی بچوں سے زیادہ مجھے آپ کی محبت ہو۔ مقدارِ محبت کا تیسرا جز اور وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ اور اے اللہ! اپنی محبت مجھے اتنی دے دے کہ ٹھنڈے پانی سے پیاسے کو جو مزہ آتا ہے اس سے زیادہ مجھے آپ کی محبت ہو۔ پوچھو میرصاحب سے کہ ٹھنڈے پانی میں کتنا مزہ آتا ہے ان کو۔ یہ پانی میں برف نہیں ڈالتے، برف میں پانی ڈالتے ہیں، اگر ٹھنڈا پانی نہ ملے تو ان کو قے ہونے لگتی ہے۔ بس جب اللہ تعالیٰ سے محبت ہوجائے گی تو غیراللہ سے قے ہونے لگے گی۔ اے اللہ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دونوں دعائیں ہمارے حق میں قبول فرمالے کہ اے خدا! ہم آپ سے آپ کی محبت مانگتے ہیں، آپ کے عاشقوں کی محبت مانگتے ہیں اور ان اعمال کی محبت مانگتے ہیں کہ جن سے آپ کی محبت ملتی ہے، اور محبت کتنی ہونی چاہیے کہ آپ ہمیں ہماری جان سے زیادہ اور ہمارے اہل و عیال سے زیادہ اور شدید پیاس میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ پیارے ہوجائیں۔ محبت کی مطلوبہ مقدار کیسے حاصل ہو؟ لیکن محبت کی یہ مقدار کہاں سے ملے گی جس سے ہم اللہ والے ہوجائیں، تو ایک بات سن لیجیے۔ بہت دردِدل سے کہتا ہوں کہ امرود ملتا ہے امرود والوں سے، آم ملتا ہے آم والوں سے، کپڑا ملتا ہےکپڑے والوں سے، مٹھائی ملتی ہے مٹھائی والوں سے، کباب ملتا ہے کباب والوں سے، اللہ ملتا ہے اللہ والوں سے، کسی دلیل کی اس میں ضرورت نہیں ہے۔ ایک لوہے نے پارس پتھر