انوار حرم |
ہم نوٹ : |
|
جنت پر اہل اللہ کی افضلیت کا دوسرا استدلال میں یہ عرض کررہا تھا کہ نعمت دینے والے کا درجہ نعمت سے زیادہ ہوتا ہے۔ پس حامل تجلیاتِ منعم ہونے کے سبب اہل اللہ جنت سے افضل ہیں۔ اسی لیے علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فَاذۡکُرُوۡنِیۡۤ اَذۡکُرۡکُمۡ وَ اشۡکُرُوۡا لِیۡ وَ لَا تَکۡفُرُوۡنِ 11؎کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ذکر کو اللہ تعالیٰ نے مقدم کیوں کیا اور شکر کو مؤخر کیوں کیا؟اس کی وجہ یہ ہے کہ فَاِنَّ حَاصِلَ الذِّکْرِ الْاِشْتِغَالُ بِالْمُنْعِمِ ذکر کی حالت میں آدمی نعمت دینے والے کے ساتھ مشتغل رہتا ہے اور علامہ آلوسی نے باب افتعال استعمال کیا کہ ارادہ کرکے وہ اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ ایک شخص نے حکیم الامت کو لکھا کہ ایسا وظیفہ بتائیے کہ ہر وقت بلا ارادہ زبان سے اللہ اللہ نکلتا رہے۔ فرمایا کہ توبہ کرو اس بات سے۔ اس لیے کہ بے ارادہ زبان سے اللہ نکلنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ مجبور ہوگئے اور ثواب ملتا ہے اپنے اختیار سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے سے۔ جب مجبوراً اللہ کہوگے اور تمہارا اختیار ہی نہ رہے گا تو ثواب کیا ملے گا ذکر کا؟ تو ذکر کا حاصل ہے نعمت دینے والے کے ساتھ مشغول ہونا وَاِنَّ حَاصِلَ الشُّکْرِ الْاِشْتِغَالُ بِالنِّعْمَۃِ اور شکر حاصل ہےنعمت کےساتھ مشغول ہونا۔ فَالْمُشْتَغِلُ بِالْمُنْعِمِ اَفْضَلُ بِالْمُشْتَغِلِ بِالنِّعْمَۃِ 12؎ جو منعم کے ساتھ مشغول ہے وہ نعمتوں میں مشغول ہونے والے سے افضل ہے، اس لیے ذکر کو مقدم فرمایا۔ اسی لیے جنت میں مشغولی سے پہلے اللہ والوں سے ملنے کا حکم ہوا۔ یہ تفسیر روح المعانی ہے۔ معلوم ہوا کہ جو لوگ اللہ والوں سے گھبراتے ہیں، ان کے جنتی ہونے میں خطرہ ہے، ان کو ذوقِ جنت حاصل نہیں جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں پہلے میرے عاشقوں سے ملو۔ تین پیاری سنتیں جن سے لوگ غافل ہیں اور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اللہ تعالیٰ کی محبت مانگی تو ساتھ ہی اللہ والوں کی محبت بھی مانگی ہے۔ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ اے خدا! میں تجھ سے تیری محبت کا سوال _____________________________________________ 11؎البقرۃ: 152 12؎روح المعانی:19/2،البقرۃ(152)،داراحیاء التراث، ذکرہ بلفظ لأن فی الذکر اشتغالا بذاتہ تعالٰی وفی الشکراشتغالابنعمتہٖ والاشتغال بذاتہ تعالی اولی من الاشتغال بنعمتہٖ