انوار حرم |
ہم نوٹ : |
|
فضل بصورتِ عدل امام ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے چودہ جلدوں میں بخاری شریف کی شرح فتح الباری عربی زبان میں لکھی ہے۔ وہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو پیمایش کا حکم دیا اور خاموشی سے اس اللہ والوں کی زمین کو قریب کردیا تو کیا یہ عدل کے خلاف ہے؟ تو اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ ہٰذَا فَضْلٌ فِیْ صُوْرَۃِ عَدْلٍیہ عدل کی صورت میں فضل تھا،اور فضل عدل کے خلاف نہیں ہوتا کیوں کہ فضل قانون کا پابند نہیں ہوتا۔ آپ سو ریال یومیہ کی مزدوری پر دو مزدور لائے، دونوں کو آپ نے طے شدہ مزدوری کے مطابق سو ریال دے دیے لیکن ایک کو سو ریال آپ نے مزید دیے کہ یہ میں آپ پر فضل کررہا ہوں، تو یہ فضل عدل کے خلاف نہیں، دوسرا مزدور یہ نہیں کہ سکتا کہ صاحب یہ عدل کے خلاف ہے کیوں کہ طے شدہ مزدوری سو ریال اس کو عدل کے مطابق دے دی گئی۔ جس کو مزید سو ریال دیے یہ فضل ہے اور فضل قانون سے مقید نہیں ہوتا۔ ایک علمی اِشکال اور اس کا جواب اس کے بعد علامہ حجر عسقلانی نے فتح الباری میں ایک اشکالِ علمی قائم کیا جو اہلِ علم کے لیے بہت مفید ہے کہ قاتل نے سو مقتولین کے ورثا سے تو معافی بھی نہیں مانگی، نہ قصاص دیا، نہ دیت دی تو اللہ تعالیٰ نے بندوں کا حق کیسے معاف کردیا؟ اس کا جواب سن لیجیے! علامہ ابنِ حجر عسقلانی الفاظ فتح الباری کے پیش کرتا ہوں اور ترجمہ بھی کردوں گا۔ اِنَّ اللہَ تعالی اِذَا قَبِلَ تَوْبَۃَ الْقَاتِلِ تَکَفَّلَ بِرِضَاخَصَمِہٖ 28؎جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے خوش ہوجاتا ہے اور اس کی توبہ کو قبول کرلیتا ہے تو جتنا حق بندوں کا ہوگا خود اللہ تعالیٰ ادا کرے گا اور جتنے فریق ہوں گے جو اپنا حق مانگیں گے تو ان کے سارے حقوق قیامت کے دن اللہ تعالیٰ خود ادا فرماکر ان کو راضی کردیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میں نے اپنے اس بندے کو معاف کردیا ہے اور میں اس سے خوش ہوگیا ہوں، _____________________________________________ 28؎فتح الباری للعسقلانی:517/6 ،باب قولہ ام حسبت ان اصحٰب الکہف ، دارالمعرفۃ، بیروت