انوار حرم |
ہم نوٹ : |
|
وخوشی میں غمگین اور بے چین کرسکتے ہیں اور اسبابِ غم میں مسرور کرسکتے ہیں۔ اسی لیے فرمایا: اَلَا بِذِکۡرِ اللہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ کہ دل کا چین صرف اللہ تعالیٰ کی یا دپر مبنی ہے۔ بِذِکْرِ اللہِ کی تقدیم کی حکمت اور بِذکْرِ اللہِ کی تقدیم سے معنیٰ حصر کے پیدا ہوگئے لہٰذا اہلِ عرب پر اور سارے عالَم کے عربی دانوں پر یہ ترجمہ کرنا لازم ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی یاد سے دل کو چین ملتا ہے۔ پوچھ لیجیے، علماء بیٹھے ہوئے ہیں جو قواعد سے واقف ہیں کہ تَقْدِیْمُ مَاحَقُّہُ التَّاْخِیْرُ یُفِیْدُ الْحَصْرَ یہاں بِذکْرِ اللہِ کا حق تاخیر کا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو مقدم فرمایا کیوں کہ اگر مقدم نہ کیا جاتا تو اللہ کی یاد کے علاوہ اور چیزوں سے بھی چین ملنا ثابت ہوجاتا لیکن بِذکْرِ اللہِ کو مقدم فرماکر اللہ تعالیٰ نے حصر فرما دیا کہ صرف میری ہی یاد سے تم چین پاؤگے، اگر تم مجھے بھول جاؤگے اور میری نافرمانی میں مبتلا رہوگے تو سارے عالم کے اسبابِ چین میں ہم تم کو بے چین رکھیں گے۔ جیسے مچھلی بغیر پانی کے بے چین رہتی ہے۔ مولانا رومی نے کس طرح سے اس کو ثابت کیا کہ ؎ گرچہ در خشکی ہزاراں رنگ ہاست ماہیاں را با یبوست جنگ ہاست چاہے خشکی میں ہزاروں عیش اور رنگینیاں ہوں لیکن مچھلیوں کو خشکی سے عداوت اور جنگ ہے۔ اگر ریڈیو سے دریا میں بین الاقوامی اعلان ہوجائے کہ اس وقت دریا کے اندر بڑے بڑے مگرمچھ آگئے ہیں جو مچھلیوں کو کھارہے ہیں لہٰذا اے مچھلیو! اپنی کوئی اور پناہ گاہ ڈھونڈ لو اور دریا کو چھوڑ دو تو مچھلیوں کی طرف سے یہی جواب ہوگا کہ دریا کے علاوہ ہماری کوئی پناہ گاہ نہیں، خشکی میں تو ہماری موت یقینی ہے، یہاں اُمید ہے کہ ہم بچ جائیں اور مگرمچھ ہمیں نہ کھائیں لیکن خشکی میں تو ہم زندہ ہی نہیں رہ سکتے۔ اسی طرح لاکھ عیش و طرب اور اسبابِِ غفلت ہوں، مؤمن بھی اللہ تعالیٰ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور بزبانِ حال کہتا ہے ؎ ترا ذکر ہے مری زندگی ترا بھولنا مری موت ہے