انوار حرم |
ہم نوٹ : |
|
لہٰذا جو دنیا ہی میں اللہ تعالیٰ کو پاجاتا ہے تو سب کچھ بھول جاتا ہے۔ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا عالم قربِ خاص ایک بار حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تہجد کے وقت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں،آپ پانچ پانچ پارےایک ایک رکعت میں پڑھتے تھے کہ پنڈلیاں سوج جاتی تھیں۔ملّاعلی قاری نے اس حدیث کی توثیق کی ہے کہ یہ بالکل صحیح روایت ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نےعرض کیایارسول اللہ! آپ نے فرمایا مَنْ اَنْتِ ’’تم کون ہو؟‘‘آہ! کوئی تو مزہ پایا آپ کی جانِ پاک مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اس قدر قریب، رات دن ساتھ رہنے والی اُم المؤمنین کو نہیں پہچانا اور فرمایا کہ تم کون ہو؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا اَنَا عَائِشَۃُ میں عائشہ ہوں۔ فرمایا مَنْ عَائِشَۃُ ؟ عائشہ کون ہے؟ عرض کیا بِنْتُ اَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ابو بکررضی اللہ عنہ کی بیٹی۔ فرمایا ابوبکر کون ہے؟ عرض کیا اِبْنُ اَبِیْ قُحَافَۃَ جب ابوبکر تک کو بھی آپ نے نہیں پہچانا تو ابوقحافہ کا نام لیا کہ میں ان کی پوتی ہوں۔ فرمایا مَنْ اَبُوْقُحَافَۃَ ابوقحافہ کون ہیں؟ تب آپ خوفزدہ ہوکر واپس چلی گئیں کہ یااللہ! رات دن میرا ساتھ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھےنہیں پہچان رہے ہیں ؎ نمودِ جلوۂ بے رنگ سے ہوش اس قدر گم ہیں کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی جب آپ تہجد سے فارغ ہوتے تو اپنی روح مبارک کو عرشِ اعظم سے مدینہ شریف کی زمین پر اُتارنے کے لیے تاکہ مسجدِ نبوی میں امامت کے فرائض انجام دے سکیں، آپ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کچھ گفتگو فرماتے۔ کَلِّمِیْنِیْ یَاحُمَیْرَاء اے عائشہ! مجھ سے کچھ باتیں کرو۔مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ وہ عام گفتگو نہیں تھی جو میاں بیوی کرتے ہیں بلکہ جس طرح جہاز بلندی سے آہستہ آہستہ رن وے پر اُترتا ہے اسی طرح آپ اپنی روح کو عرشِ اعظم سے مدینہ شریف کی سرزمین پر لانے کے لیے اور مسجدِنبوی میں امامت کے فرائض ادا کرنے کے لیے یہ گفتگو فرماتے تھے۔ چناں چہ جب آپ کو افاقہ ہوا اور آپ نے نزول فرمایا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سارا ماجرا بیان کیا تو آپ نے فرمایا اے عائشہ!