انوار حرم |
ہم نوٹ : |
|
فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ ﴿ۙ۲۹﴾ وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ ﴿٪۳۰﴾ 10؎دیکھو جنت کی طرف دیکھنا بھی نہیں، پہلے میرے خاص بندوں سے ملو پھر جنت میں جاؤ اور وہاں کی نعمتوں میں مشغول ہو،کیوں کہ میرے خاص بندوں کا درجہ جنت سے اعلیٰ ہے۔ اس کی ایک دلیل تو میرے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ دیتے تھے کہ اہل اللہ جنت کے مکین ہیں، جنت اللہ والوں کامکان ہے اور مکین افضل ہوتا ہے مکان سے۔ کیا منطقی دلیل دی میرے شیخ نے! اور دوسری دلیل ان کے غلام اختر کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی کہ جنت حاملِ نعمت ہے اور اہل اللہ حاملِ منعم ہیں اور حاملِ منعم کا درجہ نعمت سے زیادہ ہے، کہاں نعمت اور کہاں نعمت کا دینے والا! لہٰذا جن کے دل میں نعمت دینے والا متجلی ہے ان کا درجہ جنت سے زیادہ نہ ہوگا؟ معلوم ہوا کہ اہل اللہ جنت سے افضل ہیں کیوں کہ ان کو جنت دینے والے سے نسبت ہے، خالق جنت سے رابطہ ہے اور جنت نعمت تو ہے لیکن نعمت منعم سے نہیں بڑھ سکتی۔ مخلوق خالق کے مقابلے میں نہیں آسکتی اسی لیے جنت میں مشغول ہونے سے پہلے فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ کا حکم ہوا کہ پہلے میرے خاص بندوں سے ملو، بعد میں جنت کے مزے اُڑاؤ۔ لفظ صاحبِ نسبت پر استدلال بالنص اور عِبٰدِیۡ میں یانسبتیہ و تخصیصیہ ہے کہ ان بندوں کو مجھ سے نسبت ہے، یہ میرے خاص بندے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ صاحبِ نسبت کیا چیز ہے؟ یہ لفظ تو صوفیا کی ایجاد معلوم ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ایجاد نہیں ہے، فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ کی ی میں کیا نسبت نہیں ہے۔ جیسے برادرِنسبتی کی نسبت تو سمجھ میں آجاتی ہے۔ بیوی کے بھائی کو برادرِنسبتی کہتے ہیں جس کو عام زبان میں سالا کہا جاتا ہے لیکن میں سالا کہنے کو منع کرتا ہوں کیوں کہ آج کل یہ لفظ گالیوں میں استعمال ہوتا ہے کہ مارو سالے کو۔ اس لیے بیوی کا بھائی کہہ دو، برادرِنسبتی کہہ دو، برادر ان لا (Brother in law) کہہ دو، بچوں کا ماموں کہہ دو، بہت سے مہذب الفاظ ہیں۔ تو جس طرح لیلیٰ کی وجہ سے برادرِ نسبتی میں نسبت سمجھ میں آجاتی ہے تو مولیٰ کی نسبت سے اللہ والوں کا اہلِ نسبت ہونا کیوں سمجھ میں نہیں آتا۔ _____________________________________________ 10؎الفجر: 29 -30