انوار حرم |
ہم نوٹ : |
|
ہوں۔ سبحان اللہ! کیا پیارا مضمون ہے۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مانگا وہ سنت ہے۔ آپ کا ہر چلن، آپ کی ہر دعا، آپ کی ہر آہ سب سنت ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کی محبت مانگنا بھی سنت ہوا لہٰذا یہ بھی مانگو ورنہ تارکِ سنت ہوجاؤگے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مانگ رہے ہیں اور آپ کو تو محبت کی یہ مقدار حاصل تھی، آپ مانگ کر اُمت کو سکھارہے ہیں کہ اے اللہ! ہم کو اپنی محبت اتنی زیادہ دے دے کہ اپنی جان سے زیادہ ہم آپ کو پیار کریں یعنی اگر ہماری جان کسی نامحرم عورت کو دیکھنے سے خوش ہوتی ہے تو آپ کو خوش کرنے کے لیے ہم اپنی جان کو غمگین کرلیں مگر بدنظری کرکے آپ کو ناخوش نہ کریں۔ تب معلوم ہوگا کہ اب اللہ جان سے زیادہ محبوب ہوگیا۔ جیسے دو آدمی آئے کہ ہم کو ووٹ دینا اور دونوں آپ کے دوست ہیں تو جس کی زیادہ محبت ہوگی ووٹ اسی کو دوگے۔ نفس حرام خواہش کرتا ہے یعنی demand کرتا ہے کہ اس نامحرم عورت کو دیکھ لو یا اس حسین لڑکے کو دیکھ لو، اب اگر آپ نے نفس کی ڈیمانڈ نہیں مانی تو آپ نے اللہ تعالیٰ کو ووٹ دیا اور اگر نفس کی بات مان لی تو آپ نے نفس کو ووٹ دے دیا۔ معلوم ہوا کہ ابھی نفس کی محبت اور اپنی جان کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت سے زیادہ ہے اور آپ کا یہ عمل بالکل عشق کے خلاف ہے۔ لہٰذا آج سے ہم سب ارادہ کرلیں کہ جان کی بازی لگادیں گے مگر اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے حرام مزہ اپنے اندر نہیں آنے دیں گے ؎ آرزوئیں خون ہوں یا حسرتیں پامال ہوں اب تو اس دل کو ترے قابل بنانا ہے مجھے اور واللہ! اس بلد امین میں قسم کھاکر کہتا ہوں کہ جس دن آپ اللہ تعالیٰ کو ناخوش نہیں کریں گے اور اللہ تعالیٰ کو خوش کرکے اپنی حرام خوشیوں کا خون کردیں گے تو اس کا خون بہا خود اللہ کی ذات کو پائیں گے، آپ کے دل میں اللہ اپنی تجلیاتِ خاصہ سے متجلی ہوگا اور اتنا مزہ پائیں گے کہ دونوں جہاں بھول جائیں گے۔ میرا ہی شعر ہے ؎ وہ شاہِ دو جہاں جس دل میں آئے مزے دونوں جہاں سے بڑھ کے پائے یہی وجہ ہے کہ اللہ والے فروخت نہیں ہوتے کیوں کہ ان کے قلب میں دونوں جہاں سے زیادہ مزہ ہے اور آدمی بہتر کو پاکر کمتر سے فروخت نہیں ہوتا، سورج کو پاکر ستاروں سے نہیں بک سکتا۔