انوار حرم |
ہم نوٹ : |
|
غم زدہ کرسکتے ہیں اور اگر ہم چاہیں تو غم کے اسباب میں تم کو مسرور کرسکتے ہیں، اسبابِ غم میں گھرا ہوا ہے اور مسکرا رہا ہے۔ اس پر بھی میرا ایک قطعہ اردو کا ہے؎ رضائے دوست کی خاطر یہ حوصلے ان کے ہنسی لبوں پہ ہے گو دل پہ زخم کھاتے ہیں عجیب جامع اضداد ہیں ترے عاشق خوشی میں روتے ہیں اور غم میں مسکراتے ہیں جبکہ مناطقہ اور فلاسفہ کے نزدیک اجتماعِ ضدین محال ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے عاشقوں نے محال کو ممکن بنادیا کہ اگر کبھی خطا ہوگئی اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف اپنا دل خوش کرلیا تو اس خوشی پر نادم ہوکر رونے لگتے ہیں کہ اے اللہ تعالیٰ! معاف کردیجیے، اور اللہ کو خوش کرنے کے لیے گناہ سے بچ کر اپنے دل کو ناخوش کرلیا تو اس غم پر خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا دل تو غمگین ہوا لیکن ہمارا مولیٰ تو خوش ہوگیا۔ اس توفیق پر ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ اجتماعِ ضدین کی مثال پر میرا ایک اور شعر ہے ؎صدمہ و غم میں مرے دل کے تبسم کی مثال جیسے غنچہ گھرے خاروں میں چٹک لیتا ہے مولانا جلال الدین رومی فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو غم میں آپ کو خوش رکھ سکتا ہے، اسبابِ غم میں آپ کو مسرور رکھنے پر وہ قادر ہے اور اسبابِ خوشی میں وہ دل کو بے چین اور پریشان اور اشکبار کرسکتا ہے ؎ گر او خواہد عین غم شادی شود عین بند پائے آزادی شود اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو غم کی ذات کو خوشی بنادے اور پاؤں کی بیڑی کو آزادی بنادے۔ دنیا کے لوگ پہلے غم کے اسباب کو ہٹاتے ہیں پھر خوشی لانے کی کوشش کرتے ہیں، پاؤں کی بیڑی یعنی اسبابِ قید کو دور کرتے ہیں پھر آزادی دیتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کو اسبابِ غم ہٹانے کی ضرورت نہیں، وہ غم کی ذات ہی کو خوشی بنادیتے ہیں اور قید ہی کو آزادی بنادیتے ہیں۔ وہ اسبابِ راحت