لیکن اب آپ نے قریباً ہر پیرے پر عنوان قائم کر کے اپنے رموزو کنایات کی بڑی حد تک تشریح کر دی ہے، اور ان عنوانات کی روشنی میں کتاب کو دیکھنے کے بعد اب حیرت ہوتی ہے کہ گنتی کے ان چند ورقوں میں اس بندئہ خدا نے کیا کیا بھر دیا تھا اور کس طرح بھر دیا تھا؟
دریا بکوزہ کی مثال بہت مشہور ہے لیکن شاید دنیا کی کسی اور کتاب پر وہ اس سے بہتر طور سے صادق نہ ہو۔
میرا اندازہ ہے اور ان شاء اللہ غلط نہیں کہ اگر انہی مضامین کو عام نگارش کے طرز پر لکھا جاتا اور انہی دعاوی و دلائل کو عام استدلالی ترتیب سے مرتب کیا جاتا تو ایسی کم از کم چار پانچ جلدوں میں یہی مضامین مشکل سے سماتے ، لیکن محترم مصنف کے مخصوص طرزِ تحریر نے ان تمام وسیع الذیل مباحث و مضامین کو چھوٹی سی کتاب میں سمیٹ دیا ہے جو یقینا بڑا کمال ہے۔
ناظرین کو کتاب سے قریب کرنے کے لیے ( جو اس تعارف کا مقصد ہے) کتاب اور اس کے مصنف کی ایک اور خصوصیت کا ذکر بھی ناگزیر ہے۔
علم و تحقیق کی وسعت یا گہرائی اور اپنی معلومات کو خوبصورتی کے ساتھ دلنشین طریقہ پر بیان کردینا یا تحریر میں لے آنا یہ وہ کمالات ہیں جن میں بڑی حد تک کسب کو بھی دخل ہے، لیکن عشق کی آگ اور دل کاسوز و گداز وہ دولت ہے جو صرف خدا کی دَین پر موقوف ہے، پھر جب وہ کمال اور یہ خداداد دولت کہیں جمع ہو جائیں اور دونوں مل کر کسی صاحبِ محبوبیت کبریٰ کی تصویر تیار کریں تو جیسی کچھ تیار ہو گی ظاہر ہے۔
’’النبی الخاتم‘‘کے محترم مصنف انہی خوش نصیبوں میں سے ہیں جنہیںعلم و تحقیق اور تقریر و تحریر کے کمال کے ساتھ اس وہبی نعمت سے بھی حصۂ وافر ملا ہے اور اس لیے اس کتاب میں غیر قصدی بلکہ شاید غیر شعوری ہی طور پر کہیں کہیںحال کا رنگ بھی آگیا ہے، جس نے علم و تحقیق کے ساتھ مل کر ایک خاص کیف پیدا کر دیا ہے اور جی چاہتا ہے کہ ان مقامات کو بار بار مزے لے لے کر پڑھا جائے۔ اگرچہ اس حال اور تحقیق کی آمیزش نے بعض جگہ تعقید بھی پیدا کر دی ہے لیکن سر مستانہ جوشِ بیان کی لذت ان جگہوں پر بھی تعقید کی کلفت محسوس نہیں ہونے دیتی۔
یہاں تک پہنچ کر جی چاہتا ہے کہ اس کتاب اور اس کے صاحبِ نعت مصنّف کے متعلق ایک خاص بشارت جو اب تک میرے سینے میںسرِّ مکنوںکی طرح محفوظ رہی اس کو بھی ظاہر کر دوں۔ اگر صاحبِ کتاب کو میری یہ جسارت اور یہ افشائے رازناگوار ہو تو وہ مجھے معاف فرما دیں۔
مجھ سے ایک نہایت ثقہ بزرگ نے بیان کیا تھا کہ جن دنوں یہ کتاب ’’النبی الخاتم‘‘ تصنیف ہو رہی تھی ایک صاحبِ دل