گزرتا جس میں اس مقدّس موضوع پر کوئی کتاب، کوئی رسالہ یا کوئی مقالہ کہیں سے اشاعت پذیر نہ ہوتا ہو۔ اور ہونا بھی یہی تھا کیوںکہ رفع ذکر ازل کی طے شدہ الہٰی تجویز ہے۔
لیکن اس شیوع اور اس بے انتہا کثرت کے باوجود ایسی کتابیں اس بے پایاں ذخیرہ میں گنتی کی چند ہی نکلیں گی جن میں سیرتِ نبویﷺکو ایسی جامعیت اور اکملیت کے ساتھ پیش کیا گیا جو اس کا طغرا ئے امتیاز ہے۔ بالخصوص اس سلسلہ کی چھوٹی اور متوسط کتابیں تو اس چیزسے اکثر خالی ہی ہیں۔ اور فی الحقیقت یہ ہے بھی بہت مشکل کہ گنتی کے چند ورقوں میںنبی ٔ خاتمﷺکی اس سیرت مقدسہ کو جو قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیے اُسوہ ہے جامعیت کے ساتھ پیش کیا جا سکے۔
لیکن الحمد للہ پیش نظر کتاب اس حیثیت سے انہی چند مستثنیات میں سے ہے۔ وہ اختصار کے باوجود سیرتِ نبویہ کے تمام قابلِ غور پہلوئوں پر حاوی ہے۔ بلکہ جن پہلوئوں کو سطح بین دنیا نے قابل غور نہیں سمجھا اور اس لیے ہمیشہ ان پر سرسری طور سے گزرا گیا ان کو بھی اس کتاب میںقابلِ غور بنا کر پیش کیا گیا ہے، جیسا کہ ان کا حق تھا۔ اور بہت سے ان معلوم و مشہور واقعات سے جوحیاتِ نبوی ﷺ کے معمولی سوانح ہی کی حیثیت سے لوگوں کے ذہنوں اور حافظوں میں محفوظ ہیں نہایت گہرے دوررس اور پھر بالکل صحیح نتائج نکالے ہیں، بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ اس خصوص میں یہ چھوٹی سی کتاب بالکل عدیم النظیر ہے۔
جدید تحریکِ سیرت کے بانی جناب عبدالمجید صاحب قرشی ایڈیٹر اخبار ’’ایمان‘‘ جنہوں نے مصر و شام و ہند کے مشاہیر سے درجنوں مقالے اور مضامین اس موضوع پر لکھوائے ہیں۔ اور خود یہ کتاب’’النبی الخاتم ‘‘بھی ابتداء ًا انہی کی تحریک پر ایک مقالہ کی صورت میں لکھی گئی تھی انہوں نے اس کے متعلق لکھا تھا اور بالکل صحیح لکھا تھا کہ
’’سیرت کی لائبریری میں اس قسم کی کوئی کتاب موجود نہیں ہے ۔‘‘
یہ امر بھی قابلِ لحاظ ہے کہ یہ کتاب اگرچہ سیرت پر لکھی گئی ہے جو تاریخ ہی کا ایک شعبہ ہے، لیکن مصنف کا مقصد اس سے صرف سوانح نبویہ کی تدوین نہیں ہے، اور اس لیے واقعات میں تاریخی ترتیب کا التزام نہیں کیا گیا ہے، بلکہ ان کا مطمحِ نظر اس میں تبلیغ اور دعوت الی الحق ہے۔ انہوں نے حیات نبوی کے ہر حادثہ اور سانحہ کو صاحبِ سوانح ﷺ کی صداقت کا برہان اور آپ کے پیغام کا مصدق بنا کر پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے، مگر چوں کہ کسی وجہ سے انتہائی ایجاز و اختصار ان کے پیشِ نظر ہے اس لیے انہوں نے جابجا تصریحات کا کام صرف اشارات و رموز سے لیا ہے، اور جب کہ اس سے پہلے ایڈیشن میں عنوانات بھی نہ تھے تب تو غالباً عام ناظرین پورے طور پر ما فیہ کو سمجھ بھی نہیں سکتے ہو ں گے،