بہر حال مجھے تو اس وقت یہ کہنا تھا کہ عمل کے بعد ردِ عمل کا سلسلہ کتنی استوار و محکم ترتیب کے ساتھ آگے بڑھا ہے۔نخلہ کے جنوں کا واقعہ اگر بے چارے محدثین ہم تک نہ پہنچاتے، ان کے خوف سے نہ پہنچاتے جن میں جنوں ہی کا ایک جنی1 انکار کا جنون پیدا کرتا ہے، تو خیال کر سکتے ہوکہ ملأاعلیٰ سے ملأادنیٰ پرآکر ہم غیبی وجودکے اس طبقہ سے یکایک چھلانگ مارکر شہادت اور عالم محسوس میں کس طرح چلے آتے؟ واقعہ نہ بھی ہوتا تو عقل کا اقتضا تھا کہ اس کو ہونا چاہیے تھا۔
ارتقا کی کڑیوں میں اگر کوئی کڑی نہیں بھی ملتی ہے تو ایمان لایا جاتا ہے کہ وہ ہوگی۔ بے جانے مان لیا جاتا ہے کہ وہ تھی اور ضرور تھی۔ پھر اگر ہم نے ان کو جان کر مانااور قرآن کی قطعی روشنی، حدیث کی صحیح راہ نمائی میں مانا تو دیوانوں کو اکسا کر ابلہوں کا گروہ ہم پر کیوں ہنساتا ہے؟
مدینہ والوں سے پہلی ملاقات ٓ
الغرض نخلہ کے نخلستان میں غیب کی آخری حد بھی ختم ہو گئی، اب شہادت و محسوس کی سرحد شروع ہوتی ہے۔
مکہ معظمہ سے یہ گائوں ایک رات کے فاصلے پر واقع تھا۔ صبح ہوچکی تھی، دن نکلے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ جس وقت مکہ کے قریب منیٰ کے میدانوں میں پہنچے ہیں، قدرت اپنی عجیب کار فرمائیوں کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے ۔ یہی منیٰ تھا، یہی حج کے مواسم تھے، کتنے موسم آئے اور کتنے گئے، جب سے پھٹ کرپکارنے کا حکم ہوا تھا اس دن سے شاید ہی کوئی موسم گزرا ہو جس میں لوگوں نے قبائل کے خیموں کے آگے ـ:
یَآ أیُّھَا النَّاسُ! قُوْلُوْ لَا إِٰلہَ إِلَّا اللّٰہُ تُفْلِحُوْا۔
لوگو! بولو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے بامراد ہو جائو گے۔
پکارنے والے کو پکارتا ہوا نہ دیکھا تھا۔ اور جہاں یہ دیکھتے تھے وہیں سب کے سامنے یہ بھی ہو رہا تھا کہ جس کی طرف لپکا جاتا تھاوہی بھاگا جاتا تھا، جس کو بلایا جاتا تھا وہی کتراتا جاتا تھا اور صرف یہی نہیں بلکہ اس منفی عمل کا یہ حال تھا کہ جس کو جوڑا جا تا تھا وہ خود بھی ٹوٹتا اور دوسروں کو بھی پوری قوت سے توڑتا جاتا تھا۔ ایک بار نہیں بلکہ شاید ہر بار جب پکار بلند ہوتی جس کا ذکر ہو ،ا تو اسی کے ساتھ
یَا أَیُّھَا النَّاسُ! لَا تَسْمَعُوْا مِنْہ فَإِنَّمَا یَدْعُوْکُمْ أَنْ تَسْلُخُوْا اللَّاتَ والْعُزّیٰ مِنْ أَعْنَاقِکُمْ وَحُلَفَائِکُمْ مِنَ الْجِنِّ۔
لوگو! اس کی نہ سننا ، یہ تمہیں ادھر بلاتا ہے کہ لات اور عزیٰ اور ان بھوتوں کی اطاعت کا طوق اپنی گردنوں سے توڑ کر پھینک دو جو تمہارے دوست ہیں ۔
کا غوغا مچاتے ہوئے ابو لہب پتھروں سے مارتا اور اتنا مارتا کہ
حَتّی أَدْمٰی کَعْبَیْہٖ۔