نے ان لوگوں کے ساتھ روارکھا جو ان کے ہم نسل ، ہم قوم نہ تھے۔
قریش کو اپنے نسب پر اپنے حسب پر بڑا ناز تھا۔ نسبی فخر ایک دیوتا تھا جو صدیوں سے ان میں پوجا جاتا تھا اور اس طرح پوجا جاتا تھا کہ غیر قریشی عربوں کے ساتھ حج کرنے میں بھی اپنی اہانت محسوس کرتے تھے۔ اُجلے کالوں کے ساتھ دعا تک نہیں مانگتے ہیں، اپنی ذلت سے ڈرتے ہیں۔ قریشی اس قبرستان میں بھی دفن ہونا ننگ خیال کرتے ہیںجس میں کوئی غیر قریشی دفن ہوتا۔ جس طرح آج بھی شودروں کی مسان برہمنوں چھتریوں کے مرگھٹ سے دور ہوتی ہے یہی مؤاخاۃ کا گرز تھا جس نے اس بت کو بھی ڈھیر کر کے رکھ دیا۔
قریشی سردار انصاری کسان کے آگے جھکا ہو ا تھا، وہ اس کے ہاتھ چومتا تھا اور یہ ان کے قدم لیتا تھا۔ یہ اس کو اپنا سب کچھ بلکہ تم نے سنا ہوگا کہ طلاق دے کر ایک بیوی تک دینے پر اصرار کرتا تھااور وہ شکریہ کے ساتھ انکارکرتاتھا اور یوں مخلوقات بلکہ اپنے خود ساختہ مخلوقات کے پنجوں سے آزاد ہو کر مدینہ والوں نے اپنے کھوئے ہوئے ربِ قیوم کو پالیا تھا۔ اس کے بعد منادی کرادی گئی کہ اب دنیا ایک ہے، اس کا معبود ایک ہے، ان کا رسول ایک ہے، ان کی کتاب ایک ہے، ان کا کعبہ ایک ہے۔
اذان کی ابتدا
اور دیکھو کہ دن کے پانچ وقتوں میں کڑک کڑک کر گرج گرج کر بلند میناروں سے پکارنے والے مشرق میں، مغرب میں، زمین کے آخری کناروں تک یہی پکار رہے ہیں، پکارتے رہیں گے۔ کیا ناقوس سے، بوق سے، قرناسے، گھنٹوں سے، طبل سے ، نقاروں سے یہ بات ممکن تھی جس کی ابتدا اذان کی عجیب و غریب ندائی طریقہ سے اسی کے بعد زمین پر اسلام کی سب سے پہلی مسجد میں کی گئی؟ متعدد وطنوں کا بت ٹوٹ گیا، متعدد نسلوں کا صنم چور چور ہو گیا، جو توڑے گئے تھے جٹ گئے،جو بکھیرے گئے تھے سمٹ گئے، الغرض جو ایک تھے وہ ایک ہی ہو گئے اور اسی یکتائی کا خلاصہ وہ ہے جس کا اعلان اذان کی شکل میں پانچوں وقت کیا جاتا ہے۔ محض فکر و خیال میں نہیں بلکہ واقع میں عملی طور پر مدینہ میں دنیا کا یہ نقشہ قائم ہو گیا۔
تبلیغِ عام کا آغاز
انسانیت کی آزادی کا یہی عالمگیر نقشہ تھا جس کو عالم پر منطبق کرنے کے لیے ’’کافۃ للناس‘‘1 کا بشیر و نذیر اب ’’کافۃ الناس‘‘کی طرف بڑھتا ہے۔ صلی اﷲ علیہ وسلم۔
اس کو اختیار تھا کہ ’’قرن الثعلب‘‘کے پاس اس کو جو اخشبین (دوپہاڑ) دیے گئے تھے ان ہی کو لے کر آگے بڑھتا ہے،