بزرگ نے ایک رات عالم واقعہ میں دیکھا کہ حضرت خاتم النبیین رحمۃللعالمینﷺاپنے جمال کی پوری تابشوں کے ساتھ رونق افروز ہیں اور مولانا گیلانی قدموں میں تڑپ رہے ہیں، لیکن ان سے نظر بچائی جارہی ہے۔ صاحب ِواقعہ بزرگ نے یہ دیکھ کر حضرت بلال ؓ سے (جو وہیں موجود تھے) عرض کیا کہ اس بے چارے کو ایک نظر کیوں نہیں دیکھ لیا جاتا؟ حضرت بلال ؓ نے فرمایا:
اس کو اگر دیکھ لیا گیا تو مر جائے گا۔
میرے نزدیک یہ مقد س صحبت اور یہ تڑپ اس مبارک تالیف کی صورت مثالیہ اور اس کے مصنف کے پر سوز جذبات کی تصویر تھی۔
بریں مژدہ گرجاں فشانند رواست
ہزار عمر فدائے دمے کہ من از شوق
بخاک و خوں تپم و گوئی از برائے من است
آخر میں کتاب کے متعلق دو باتیں اور بھی عرض کرنی ہیں۔ اس کتاب میںمصنف نے آںحضرت ﷺ کی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ مکی زندگی کو انہوں نے دل کی زندگی اور مدنی زندگی کو دماغ کی زندگی قرار دیا ہے۔ میرے علم میں یہ بالکل نئی مگر نہایت صحیح تقسیم ہے۔ فی الحقیقت نبوت کے بعد مکہ کی بارہ تیرہ سالہ زندگی میں جن کمالات کا ظہور ہوا ان کا زیادہ تر تعلق ملکاتِ قلبیہ ہی سے تھا اور مدنی زندگی میں جو امورِ مہمہ انجام پائے ان کے لیے دماغی صلاحیت و قابلیت اور فکر و تدبیر ہی کی ضرورت ہو تی ہے۔
دوسری بات یہ کہ جو حضرات اس کتاب کو صرف ایک نظر دیکھیں گے وہ شاید پورا استفادہ نہ کریں گے اور نہ اچھی طرح لطف اندوز ہو سکیں گے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ گہری نظر سے اس کو ایک سے زیادہ مرتبہ دیکھا جائے۔ خود میں نے بھی اس کو دو مرتبہ بالا ستیعاب اور بعض مقامات کو اس سے بھی زیادہ دفعہ دیکھا ہے اور ہر مر تبہ قندِ مکررکا لطف اٹھایا ہے۔
والسلام
(مولانا) محمد منظور نعمانی عفااللہ عنہ
ماہ ِرحمت ربیع الاول (۱۳۵۸ھ)