لیکن یہ تو پھر دل کا امتحان ہو جاتا، حالاںکہ اب تو صرف دماغ ہی کا تجربہ کرانا مقصود ہے۔ دکھایا جاتا ہے کہ جس کے دماغ کے یہ کارنامے ہیں، اس کو مجنوں کہنے والے کیا خود مجنوں نہیں ہیں؟ جس کی عقل، جس کے فہم کے یہ کرشمے ہیں اس کے عقلی توازن میں نقص نکالنے والے، کیا ایسے بدبخت خود عقلی توازن سے محروم نہیں ہیں؟
مشکلاتِ راہ
راستہ اگر صاف ہوتا تو اس وقت جو کچھ دکھانا ہے کامل طور پر دکھایا نہیں جا سکتا تھا، لیکن دیکھو راہ میں کانٹوں کے جو گھنے جنگل چپ و راست، اوپر اور نیچے ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہیں وہ قصداً ان ہی میں گھس کر نکلتا ہے اور کتنے شاندار طریقہ سے نکلتا ہے۔ بیابان کے ایک نخلستانی قصبہ کے ان کسانوں کی آبادی سے یہ تحریک عالم کی طرف یلغار کرتی ہے جو یہودی ساہو کاروں کے سو د در سود کے بوجھ کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ ان کی زمینوں میں پیدا ہی کیا ہوتا ہے؟ لیکن جو کچھ بھی پیدا ہوتا ہے پیدا ہونے کے ساتھ یہودی قرض خواہوں کے گھر اٹھ کر چلا جاتا ہے۔ زیادہ دن نہیں ہوئے تھے کہ اس چھوٹی سی آبادی کے دو خاندان اپنی خانہ جنگی میں رہے سہے جوانوں اور سرداروں کو بھی کھو چکے ہیں۔ ان کے ساتھ اپنے دھن سے، و طن سے، بچھڑے ہوئے کچھ لوگ اور بھی شریک ہیں جن کی تعداد سو سے زیادہ نہیں ہے ۔ ان کا یہ حال ہے، دوسری طرف سارا عرب ایک کمان بن کر اس تحریک والوںکو نشانہ بنائے ہوئے ہمیشہ کے لیے نیست و نابود کرنے پر ُتلا ہوا ہے۔ یہودی اپنی مہاجنی کی کساد بازاری سے گھبرا کر ان تمام قلعوں اور قلعہ والوں کو مخالفت کے نقطہ پر جمع کر رہے ہیں جن کا سلسلہ مدینہ سے شروع ہو کر شام کے حدود تک پھیلا ہوا ہے۔ مشکلات کا خاتمہ اسی پر نہیں ہو جاتا ہے بلکہ بتدریج مخالفت کی یہ آگ بڑھتے بڑھتے اس وقت کی دنیا کی سب سے بڑی مشرقی طاقت (ایران ) اور سب سے بڑی مغربی طاقت (روم) دونوں طاقتوں کو مدینہ کی بربادی پر آمادہ کردیتی ہیـ۔ رومیوں کے گھوڑے مدینہ سے تھوڑی دور کے فاصلے پر غسانیوں1 کی حدود پر ہنہنا رہے ہیں اور کسریٰ کے چپڑاسی وارنٹ لیے مدینہ پہنچ کر دھمکارہے ہیں2 کہ مدینہ کے کسانوں کے سردار کو دربارِ شاہی میں گرفتار کر کے حاضر کیا جائے یہ ان کے شہنشاہ کا فرمان ہے جو یمن کے گورنر باذان کے توسط سے مدینہ تک پہنچا ہے۔ یہ اس وقت کا سماں ہے جس وقت مدینہ میں دماغ کے تجربے کے لیے نسلِ انسانی کو دعوت دی جاتی ہے پھر کیا ہوتا ہے؟
غزوئہ بدر
قید ار3کی ساری حشمت جیسا کہ یسعیاہ نبی نے کہا تھا، ایک سال ٹھیک مزدوروں کے ایک سال کے اندر بھس کی طرح جل کر راکھ ہو جاتی ہے۔ علوو کبریائی کا جو نشہ ان کے قدم کو جمنے نہیں دیتا تھا پھٹ کر ہوا ہو گیاـ، جو سب سے بڑا تھا سب سے